Maktaba Wahhabi

64 - 79
صرف ایک پہلو ہے، اصل مقصد مسلمانوں کی بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی کے آگے بند باندھنا ہے جو یورپ اور امریکہ کے لئے ایک عظیم خطرہ ہے!! مغربی مفکرین کی پریشانی مغربی مفکرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ”طاقت کا فیصلہ رقبے نہیں ، آبادی کے ہاتھ میں ہے۔“ اور بدقسمتی یا خوش قسمتی سے امریکہ و یورپ کی گوری صلیبی آبادی میں شرح بار آوری تیزی سے گر رہی ہے۔ اس کی وجہ ان کی غیر فطری اور بے غیرتی پر مبنی طرزِزندگی ہے یا موسمی اور ماحولیاتی اثرات۔ وجہ کچھ بھی ہو، یہ ہولناک حقیقت انہیں شدید تشویش میں مبتلا کررہی ہے۔ ان میں اوسطاً شرح بار آوری7ء1ہے جبکہ مسلم دُنیا میں اوسطاً 5ء6 ہے۔گویا یورپی اقوام میں ایک جوڑا اگلی نسل کو اپنے جیسے دو افراد بھی نہیں دے پاتا ، نتیجتاً گوری اقوام کی تعداد روز بروز پہلے سے کم ہوتی جارہی ہے۔ ٭ امریکہ اور یورپی اقوام میں گرتی ہوئی شرح پیدائش کو دیکھتے ہوئے 1990ء میں ’امریکن انٹرپرائزز انسٹیٹیوٹ‘ کے شائع کردہ ایک مضمون میں نشاندہی کی گئی کہ ”آبادی کے تناسب کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ چھوٹی قومیں (یعنی مسلم) اُبھریں گی اور بڑی طاقتیں کم آبادی کے باعث ختم ہوجائیں گی۔“ ٭ صلیبی گورے جب مسلمانوں میں اونچی شرح پیدائش دیکھتے ہیں اور حساب و کتاب کرتے ہیں تو پریشان ہوجاتے ہیں ۔ وہ دیکھتے ہیں کہ ایک عام یمنی عورت سات بچوں کو جنم دیتی ہے اور اگر آئندہ تین نسلوں تک یہی شرحِ پیدائش رہی تو ایک یمنی عورت کے 49 نواسے اور پوتے، 343 پرنواسے اور تیسری نسل تک 343x7=2401 / افراد ہوں گے، جبکہ یورپ میں ایک عام فیملی صرف ایک بچہ رکھتی ہے۔ تین نسلوں تک بمشکل 2 یا 3 ہوں گے، یعنی 2401 کے مقابلے میں صرف 3 (اگرچہ عملی دنیا میں ایسا کم ہی ہوتا ہے، مگر حساب کتاب نے صلیبیوں کو چکرا کر رکھ دیا ہے) وہ خوفزدہ ہیں کہ آئندہ چند دھائیوں میں صورتِ حال بدل جائے گی۔ ٭ 1988ء میں امریکہ ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ کی ایک رپورٹ میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ ”دنیا کی آبادی میں آنے والی تبدیلیوں سے فوجی طاقت کا عالمی توازن اگلی دو دھائیوں میں بدل سکتا ہے۔“ رپورٹ میں امریکہ کے پالیسی میکرز سے کہا گیا کہ
Flag Counter