ہوئے ترقی کے جو بلند وبالا اعداد وشمار پیش کئے ہیں ، اس سے حکومتی تضادات کھل کر سامنے آجاتے ہیں ۔ اُنہوں نے کہا کہ ”مجموعی ملکی پیداوار کی شرح نمو35ء8 فیصد ہوچکی ہے جو ملکی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے، جبکہ فی کس آمدنی 700 ڈالر تک پہنچ چکی ہے، حکومت کا گروتہ ریٹ 6ء6 فیصد تھا، لیکن خلافِ توقع زیادہ کامیابی حاصل ہوئی۔ بڑی فصلوں میں 3ء17 فیصد اور کپاس میں 45 فیصداضافہ ہوا۔ گندم 22ملین ٹن ہوئی جبکہ سروسز کے شعبے میں شرح نمو 9ء7 فیصد رہی۔“(خبریں :18/مئی ) ”پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ مجموعی پیداوار کے مقابلے میں اضافہ کی شرح 8فیصد سے تجاوز کرجائے گی۔جس کے بعدپاکستان ایشیا میں تیز رفتار شرح پیدائش کے لحاظ سے 5 بڑے ممالک میں شامل ہوجائے گا۔“ (روزنامہ جنگ لاہور: 18/مئی 2005ء) ٭ گورنر بینک دولت پاکستان جناب عشرت حسین نے BIS.org کے نام سے ویب سائٹ میں 1947ء سے 2004ء تک پاکستان کے تمام شعبوں میں ترقی اور وسائلِ پیداوار کا جائزہ ایک جدول کی صورت میں پیش کیا ہے،جس کی رو سے گندم کی پیداوار میں 7 گنا، چاول میں 14ء7 گنا،کپاس میں 09ء9 گنا جبکہ گنے کی پیداوار میں 402 گنا اضافہ ہوا۔ سٹیٹ بنک کے مطابق فی کس آمدنی میں 8 گنا،جبکہ آبادی میں صرف 5ء4 گنا اضافہ ہوا۔ ٭ وزیر اعظم نے کسانوں پر زمینی پیداوار کو مزید بڑھانے کے لئے کوششیں کرنے پر زور دیتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ ہم گندم کی فی ایکڑ پیداوار کو 35 من سے بڑھا کر 50 من تک لے جانا چاہتے ہیں ۔(خبریں : 16/مئی) جبکہ جہاں تک پاکستان کی زمین کی پیداواری صلاحیت کا تعلق ہے تو خبریں کے ہی زیر اہتمام ایک مقابلے میں انعام شدہ زمینوں کی پیداواری صلاحیت بالترتیب یہ رہی: 84ء86 اور 71 او رتیسرے انعام کی حقدار زمین 73ء69۔ گویا ابھی پاکستانی زمین میں اس سے بھی زیادھ گنجائش موجود ہے۔ دوسری طرف ابھی پاکستان کی 30 فیصد زرعی زمین بے کار اور ہماری توجہ کی منتظر پڑی ہے۔ پاکستان میں فیملی پلاننگ کا کام 1953ء میں انفرادی کوششوں اور این جی اوز سے شروع ہوا۔ 1960ء میں اس کو باقاعدہ سرکاری سرپرستی حاصل ہوئی، اس کی تشہیر شروع ہوئی، اس کی سہولیات عام ہوئیں تو لوگوں نے سمجھا کہ یہ فحاشی اور بے حیائی کی تحریک ہے۔ علماء ودانشوروں اور صحیح الفکر لوگوں کو بہت بعد میں پتہ چلا کہ فحاشی اور بے حیائی تو فیملی پلاننگ کا |