ڈالنے کے لئے غیرملکی آقاوٴں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے پراپیگنڈہ شروع کردیا کہ قومی پسماندگی، ناخواندگی اور دیگر مسائل کی جڑ اونچی شرح پیدائش ہے۔ اگر ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو اپنی آبادی کو کنٹرول کرنا ہوگا اور اس میں کمی کرنا ہوگی۔ اس طرح آبادی میں اضافہ کے پراپیگنڈہ کو پسماندگی کا جواز بنا کر حکمرانوں اور بیوروکریسی نے اپنی کرپشن پرپردہ ڈال لیا۔ اس پراپیگنڈا کے لئے ہر طرح کے ذرائع ابلاغ پوری قوت سے استعمال کئے گئے۔ نتیجہ یہ ہواکہ فیملی پلاننگ کی جو بنیاد جھوٹ پرکھڑی کی گئی تھی، اسے معاشرے سے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرالیا گیا۔ آج کسی بھی دانشور، مولوی، وکیل، عام شہری سے بات کریں تو وہ کہتا ہے کہ ہمارے سارے مسائل زیادہ آبادی کی وجہ سے ہیں ۔ کوئی نہیں سوچتا کہ اگر آبادی بڑھی ہے تو قومی آمدن میں اس سے کہیں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ جناب شاہد جاوید برکی کا ایک مضمون روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا تھا،جس میں وہ لکھتے ہیں : ”1947ء سے 1991ء تک بھارت کا جی ڈی پی 4فیصد سالانہ کے حساب سے ترقی کررہا تھا جبکہ پاکستان میں ترقی کی یہ شرح 6فیصد تھی حالانکہ پاکستان کی آبادی میں اضافہ کی شرح بھارت کے مقابلے میں ایک فیصد زیادہ تھی، یعنی بھارت میں 2 فیصد اور پاکستان میں 3 فیصد تھی۔“ اس کے بعد کرپشن میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے اور شرحِ پیدائش میں کمی کے باوجود پاکستان کی ترقی کی شرح رُک جاتی ہے، چنانچہ شاہد جاوید برکی صاحب مزید لکھتے ہیں : ”بھارت میں ترقی کی رفتار 6 فیصد سے 7 فیصد ہوگئی۔ جی ڈی پی میں 1ء6 فیصد اضافہ ہوا، آبادی میں 2 فیصداور فی کس آمدنی میں 1ء4 فیصد اضافہ ہوا۔اس دوران پاکستان میں اقتصادی ترقی 1ء4 فیصد رہ گئی۔ جبکہ آبادی کی شرح میں اضافہ3فیصد سے کم ہوکر 8ء2 فیصد ہوگیا۔ یعنی شرحِ پیدائش میں کمی کے باوجود ترقی میں اضافہ کی بجائے کمی ہوئی۔“ سر تا سر جھوٹ پر مبنی یہ سبق پاکستانی حکمرانوں نے کہاں سے پڑھا؟ کس نے انہیں اپنا آلہ کار بنا کر نہ صرف اپنے مفادات حاصل کئے بلکہ پاکستانی حکمرانوں کوبھی عوامی غیظ و غضب سے بچنے کے لئے ایک محفوظ پناہ گاہ مہیا کردی۔ ٭ ایک طرف حکومت فیملی پلاننگ کے لئے یہ جواز نکالتی ہے، دوسری طرف خود اس کے اعداد وشمار اس کے دعووں کی تکذیب کرتے ہیں ۔ ابھی گذشتہ ماہ ہی پاکستانی وزیر اعظم شوکت عزیز نے 17 مئی 2005ء کو روزنامہ ’خبریں ‘ کے ’کسان ٹائم‘ میں اپنی حکومت کی کارکردگی بتاتے |