Maktaba Wahhabi

53 - 79
جائے۔ منکرین حدیث کے چند نمایاں اکاذیب و اباطیل میں سے ایک واضح جھوٹ یہ ہے کہ علامہ اقبال منکر ِحدیث اور منکر ِسنت بھی تھے۔ اس جھوٹ کو اعادہ و تکرار کے ساتھ بکثرت اور باربار دہرایا جاتا ہے، کیا آپ کو پتہ ہے کہ کیوں ؟ صرف اس لئے کہ ”نازیوں کے گوئبلز… کا مقولہ تھا کہ جھوٹ کو اگر سو دفعہ دہرایاجائے تو وہ سچ بن جاتا ہے۔ دنیا اس کے اس مقولے پر ہنستی رہی، لیکن دور رس نگاہوں نے اسے قیمت ی متاع سمجھ کر احتیاط سے رکھ لیا تاکہ بوقت ِضرورت اس سے کام لیا جاسکے۔“[1] اب ظاہر ہے کہ منکرین حدیث سے بڑھ کر ’دور ر س نگاہ‘ کس کی ہوگی؟ انہوں نے اسے قیمتی متاع سمجھ کر رکھ لیا اور بوقت ِضرورت اس سے خوب کام لیا۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ میں یہ پراپیگنڈا بھی بڑی ’دور رس نگاہ‘ کے ساتھ اس مقولے سے بھرپور کام لینے کی ایک کڑی ہے۔ یاد رکھئے، کسی شیطان نے آج تک اپنی شیطنت کو خود اپنے نام سے پیش نہیں کیا، بلکہ یہ کام اس نے ہمیشہ ان لوگوں کے نام کی آڑ میں کیا ہے، جن کا قوم میں احترام اور اثرورسوخ پایا جاتا ہے۔ اگر شیطان اپنے باطل نظریات کو خود اپنے نام سے پیش کرے تو اسے خو دبھی علم ہے کہ سماج میں یہ قابل قبول نہ ہوں گے۔ اس لئے باطل کو حق کا اور بگاڑ کو صلاح کا لباس زُور پہنا کر ان ہستیوں کے نام کی آڑ میں پیش کرتا ہے جو معاشرے میں مقامِ احترام و تعظیم رکھتے ہیں ۔ اس قسم کے شیطنت مزاج اور حیلہ جُو لوگ ان ہستیوں کی بڑی مبالغہ آمیز مدحت و ثنا کے ساتھ ساتھ ان کی بڑی بڑی تصاویر اور پورٹریٹ کو اپنے آگے رکھتے ہیں اور خود ان کے پیچھے رہ کر ان کی آڑ میں اپنا راستہ بناتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں ۔ ان کی زبانوں پر اسلاف کے حق میں زندہ باد کے نعرے اور ان کے ہاتھوں میں ان واجب الاحترام ہستیوں کی تصویریں عامة الناس میں یہ تاثر پیدا کرتے ہیں کہ انہیں ان ہستیوں سے بڑی عقیدت اور محبت ہے۔ اس کے بعد یہ پُرفریب لوگ جو چیز بھی ان اسلاف کی طرف منسوب کردیں ، لوگ اسلاف کے ساتھ اپنے احترام و عقیدت کے بل بوتے پر بغیر کسی تحقیق و تفتیش کے درست مان لیتے ہیں ۔ ٹھیک یہی تکنیک ہے جو انکارِ حدیث کے علمبرداروں نے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ (وغیرہ) کے بارے میں اختیار کی ہے۔ مجلہ طلوعِ اسلام کے ابتدائی دور میں اس کے پہلے صفحے پر حضرت
Flag Counter