Maktaba Wahhabi

52 - 79
کا مجازی مفہوم ہے تو وہ أحسنت اور مرحبا کہہ کر اسے شاداں و فرحاں قبول کریں گے کیونکہ ان آیات کے اسی ’مجازی مفہوم‘ کے بارے میں وہ خود یہ فرما چکے ہیں کہ ”آیات نمبر 17 تا 22 میں الفاظ کے مجازی معانی لئے گئے ہیں ۔“ [1] قرآنی الفاظ کی لفظی پابندی سے آزاد ہوکر قلم سے اُگلے ہوئے خوبصورت الفاظ کے ڈھیر کو اگر مجازی معنی کہہ دیا جائے تو وہ قابل قبول ہو، لیکن اگر اسے باطنی معنی قرار دیا جائے تو ناقابل قبول ہو۔ آخر یہ کیوں ؟ کسی عبارت کے باطنی معنی یا مجازی معنی ہونے کا معیار کیا ہے؟ وہ کون سے اُصول و ضوابط ہیں جن کی بنا پر دونوں قسم کے معانی میں فرق و امتیاز کیا جاسکتا ہے۔ اور مجازی معنی کو درست قرار دیا جاسکتا ہے؟ ہم جناب مضمون نگار سے بصد ادب و احترام مستفسر ہیں کہ مجازی مفہوم کے درست قرار پانے کے لئے جن اُصولوں و ضوابط کا ذکر انہوں نے اپنے مقالہ میں فرمایاہے ،وہ آخر ہیں کیا؟ ہمیں اُمید ہے کہ وہ ان اصول و ضوابط کو مع حوالہ جات کے ترتیب وار بیان کرکے ”ہمارے لئے جودوکرم کا باب وا کرنے میں بخل و تساہل سے کام نہیں لیں گے“ ورنہ لوگ یہ باور کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ’مفکر ِقرآن‘ صاحب کا ”جو دل چاہے، جب اور جیسا چاہے وہ مجاز کا بہانہ بناکر اصل مفہوم و مدلول کا تیاپانچہ کرڈالتے تھے۔“ (5) کیا علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ منکر حدیث تھے؟ جناب مضمون نگار صاحب، منکرین حدیث کے پراپیگنڈے کا شکار ہوکر یا خود اس پراپیگنڈے میں شامل ہوکر فرماتے ہیں کہ ” اگر انصاف پسندی کوئی اُصول ہے تو ہم ان ناقدانِ پرویز سے التماس کریں گے کہ یا تو وہ علامہ محمد اقبال کو بھی منکرین حدیث میں شمار کریں کیونکہ ان کے موقف ِحدیث اور علامہ پرویز کے موقف ِحدیث میں سرموفرق نہیں ہے اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو کم از کم انہیں اپنے تضادِ فکر و نظر پر کچھ تو ندامت محسوس کرنی چاہئے۔“[2] حقیقت یہ ہے کہ سچائی کی تو کوئی نہ کوئی حد ہوتی ہے، جس سے آگے کوئی راست باز شخص تجاوز نہیں کرسکتا لیکن جھوٹ کی تو کوئی حد ہی نہیں ہوتی جہاں پہنچ کر کوئی کاذب و مفتری رک
Flag Counter