Maktaba Wahhabi

58 - 62
تھے، بلکہ قرآنِ کریم کے فنون میں سے ہر فن مثلاً تفسیر، ناسخ منسوخ، متشابہ اور وقف وابتدا وغیرہ پر مستقل کتب تو بہت شروع کے زمانے سے ہی منظر عام پر آچکی تھیں اور اسی طرح البرہان سے پہلے قرآن کریم کے بعض علوم وفنون پر مشتمل کتب مثلاً فنون الأفنان از ابن جوزی 597ھ اور جمال القرآء از ابو حسن سخاوی 643ھ بھی لکھی جا چکی تھیں ۔ تو مطلب یہ ہے کہ امام زرکشی رحمۃ اللہ علیہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے البرہان میں قرآن کریم کے تمام علوم وفنون کا احاطہ کرنے کی کوشش کی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک بہت ہی مشکل کام تھا جس کو امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ پہلی مرتبہ سرانجام دینے لگے تھے۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ ہر فن پر اولین کتاب سب سے مشکل اور مختصر ہوا کرتی ہے اور بعد میں آنے والے علما اس میں اضافہ کرتے رہتے ہیں … ولٰكنّ الفضل للمتقدّم! جب امام زرکشی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کتاب تصنیف کرنا شروع کی تو ان کے سامنے سلف صالحین کی قرآنِ کریم کے مختلف علوم میں مستقل تالیفات کی صورت میں ایک بہت وسیع ذخیرہ موجود تھا تو اُنہوں نے ہر فن پر موجود مواد کو الگ الگ ترتیب دیا اور اسے ایک نئی ترتیب اور اسلوب میں ڈھال کر الگ الگ ابواب اور موضوعات کے تحت جمع کر دیا۔ امام زرکشی رحمۃ اللہ علیہ نے البرہان کی تصنیف میں پختہ علمی طریقہٴ کار اپنایا۔ سب سے پہلے تو وہ ہر فن کی تعریف اور اُس کا حدودِ اربعہ بیان کرتے ہیں اور پھر اس فن کے بڑے بڑے علما اور ان کی کتب کا تذکرہ کرتے ہیں اور پھر اس فن کا آغاز اور ارتقا ذکر فرماتے ہیں اور پھر ان فن کی اقسام، موضوعات اور مسائل کا تفصیل سے تذکرہ کرتے ہیں ۔ اس طرح جب وہ ایک فن کا مکمل احاطہ کر لیتے ہیں تو پھر اگلے فن کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں ۔ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک فن کے مختلف موضوعات کا تذکرہ کرتے ہوئے اس فن کے ائمہ کے اقوال سے بھی استفادہ کرتے ہیں اور کبھی تو ان ائمہ کا نام ذکر کرتے ہیں اور کبھی ان کی کتابیں ، لیکن وہ ان کے اقوال کو اپنے انداز اور اُسلوب سے بیان کرتے ہیں ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر وہ سلف صالحین کے لمبے کلام کو اپنے الفاظ میں مختصراً ذکر فرمادیتے ہیں ۔
Flag Counter