ملاحظات اور ان کے جوابات جن احباب کے نزدیک کھڑے ہوکر پیشا ب کرنا جائز نہیں یا کم از کم مکروہ ہے، وہ مندرجہ ذیل احادیث سے استدلال کرتے ہیں ، لیکن ان کا یہ استدلال درست نہیں جیسا کہ آئندہ سطور میں ان کی طرف سے پیش کردہ ہر حدیث کے بعد اس کی وضاحت کی جارہی ہے۔ (1) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ (ما كان رسول الله يبول إلا قاعدًا) ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف بیٹھ کر ہی پیشاب کرتے تھے۔“ (ترمذی:12، ابن ماجہ:307، مسند احمد:6/136، ابوعوانہ:1/198، بیہقی: 1/101، السلسلة الصحيحة: 201) ابوعوانہ کی روایت میں یہ لفظ ہیں (ما بال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم قائما منذ أنزل عليه القرآن)”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرجب سے قرآن نازل کیا گیا ہے، آپ نے کھڑے ہوکر کبھی پیشاب نہیں کیا۔“ بظاہر یہ حدیث اگرچہ ہمارے موقف کے خلاف معلوم ہورہی ہے، لیکن فی الحقیقت ایسا نہیں ہے کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو جس قدر علم تھا، اُنہوں نے اتنا ہی بیان کردیا؛ چنانچہ گھر کے معاملات کا تو اُنہیں علم تھا، لیکن گھر سے باہر کے معاملات ( یعنی گندگی کے ڈھیر پر آپ کے پیشاب کرنے) کی اُنہیں اطلاع نہیں ہوئی،جیساکہ امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ اور عبدالرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ (نیل الاوطار :1/151، تحفة الاحوذى:1/76) شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث نفی میں ہے جبکہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اثبات میں اور یہ بات اُصول میں معروف ہے کہ مثبت کو نافی پر ترجیح ہوتی ہے،کیونکہ اس میں علم کی زیادتی ہوتی ہے،اسلئے دونوں طرح پیشاب کرنا جائز ودرست ہے۔البتہ پیشاب کے چھینٹوں سے اجتناب واجب ہے۔ (تمام المنة:ص63،اِرواء الغلیل:1/95، الصحيحة:201) (2) جس حدیث میں مذکور ہے کہ ”آپ نے گھٹنے میں زخم کی وجہ سے کھڑے ہوکر پیشاب کیا تھا۔“ وہ ضعیف ہے۔ (مستدرک حاکم:1/182،بیہقی:1/101) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ ”اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو اس میں (مذکورہ مسئلہ کی) کفایت تھی ( یعنی کھڑے ہوکر پیشاب کرنا صرف کسی عذر کی وجہ سے ہی جائز ہوتا) لیکن دارقطنی اور بیہقی نے اسے ضعیف کہا ہے۔“ (فتح الباری:1/442) |