(3) ایک روایت میں یہ لفظ مروی ہیں (من الخطإ أن يبول الرجل قائما…) ”آدمی کا کھڑے ہوکر پیشاب کرنا خطا ہے۔“ (بیہقی:2/285، ابن ابی شیبہ:1/124) شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”یہ مرفوع ثابت نہیں ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ موقوف ہے ۔“ (تَمام المنة :64، إرواء الغليل:59) (4) ایک روایت میں عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ (ما بُلت قائمًا منذ اَسلمتُ) ”جب سے میں مسلمان ہوا ہوں ، میں نے کھڑے ہوکر پیشاب نہیں کیا۔ “ (مصنف ابن ابی شیبہ:1/124، مسند بزار:ص31 زوائدہ) شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ (سلسلة الضعيفة: 934) یہ روایت بھی ہمارے موقف کے مخالف نہیں ہے،کیونکہ اس میں مجرد ایک صحابی کا فعل بیان ہوا ہے کہ اُنہوں نے کھڑے ہو کر کبھی پیشاب نہیں کیا،یہ تو بیان نہیں ہوا کہ ایسا کرنا ہی غلط ہے۔ جبکہ گزشتہ تمام دلائل و حوالہ جات اس بات کا ثبوت ہیں کہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنا علیٰ الاطلاق حرام نہیں ، البتہ چھینٹوں سے اجتناب بہرحال واجب ہے ۔کیونکہ جو شخص پیشاب کی چھینٹوں سے نہیں بچتا، وہ ایک کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرتاہے، جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی دو قبروں کے قریب سے گزرے تو ارشاد فرمایا کہ ”ان قبر والوں کو عذاب دیا جارہا ہے اور ان میں سے ایک کو عذاب دیے جانے کا سبب یہ ہے کہ (فكان لا يستنزه من البول) ”وہ پیشاب سے نہیں بچتا تھا۔“ (مسلم:292، بخاری:216، احمد:1/225، ابوداود:20، ترمذی:70) ایک اور روایت میں حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (أكثر عذاب القبر من البول)”قبر کا اکثر عذاب پیشاب کی وجہ سے ہوتا ہے۔“ (احمد:2/326، مصنف ابن ابی شیبہ:1/131، مستدرک حاکم:1/83، صحیح ابن ماجہ :278) جس عمل کی و جہ سے عذابِ قبر یقینی ہو،لا محالہ اس سے اجتناب بھی ضروری ہے۔ اگرچہ گزشتہ دلائل کھڑے ہوکر پیشاب کے جواز کا ثبوت ہیں ، لیکن یہ بات یاد رہے کہ قضاے حاجت کے لئے فطری، طبی، طبعی اور چھینٹوں سے بچاوٴ کے اعتبار سے زیادہ مناسب وسہل طریقہ بیٹھ کر ہی پیشاب کرناہے۔ واللہ اعلم |