ونحن نسعى (مسندطيالسى(مبوب) :1/333، باب ماجاء فى الشرب قائمًا) ”ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِمبارک میں کھڑے کھڑے پانی پی لیتے اور چلتے چلتے یا دوڑتے دوڑتے کھا لیا کرتے تھے۔“ (5) عن ابن شهاب أن عائشة اُمّ المومنين وسعد بن أبي وقاص كانا لَايَرَيَانِ يشرب الإنسان وهو قائم بأسًا (موٴطا امام مالك، باب ماجاء في شرب الرجل وهو قائم) ”ابن شہاب کابیان ہے کہ اُمّ المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کھڑے کھڑے پانی پینے میں کچھ حرج نہیں سمجھتے تھے۔“ (6) عن عامر بن عبد الله بن الزبير عن أبيه أنه كان يشرب قائمًا ”عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کھڑے کھڑے پانی وغیرہ پی لیا کرتے تھے۔“ (موطا ٴمالک: باب ایضاً) مرفوع صحیح احادیث اور تعامل صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہوتے ہوئے مزید تائیدی بیان کی قطعاً ضرورت باقی نہیں رہتی۔ پھر بھی قارئین کی تسلی کے لئے وضاحت کی جاتی ہے کہ کھڑے ہوکر کھانے پینے سے منع کی احادیث اور جواز کی احادیث کو جمع کرنے سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ کھڑے ہوکر کھانا پینا علیٰ الاطلاق حرام نہیں ۔ تمام فقہاء ِمحدثین نے ان احادیث سے یہی سمجھا ہے، جیسا کہ ہم حدیث نمبر 8 کے ضمن میں امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کی کچھ عبارت ذکر کر آئے ہیں ۔ نیز فتح الباری 10/82 پر حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام مازری رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں : اختلف الناس في هذا فذهب الجمهور إلى الجوازكه ”اس مسئلہ میں لوگوں کا اختلاف ہے، البتہ جمہور کے نزدیک کھڑے کھڑے کھانا پینا جائز ہے۔“ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ مزید رقم طراز ہیں : ولا خلاف في جواز الأكل قائمًا والذى يظهر لي أن أحاديث شربه قائمًا تدل على الجواز وأحاديث النهي تحمل على الاستحباب والحث على ماهو أولىٰ وأكمل (فتح الباری : 10/83) ” کھڑے کھڑے کھانے کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں ۔تمام احادیث کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے تو یہ سمجھ آئی ہے کہ جن احادیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کھڑے ہوکر پینے کا ذکر |