Maktaba Wahhabi

43 - 62
ہے، وہ احادیث بحالت ِقیام پانی وغیرہ نوش کرنے کے جواز پر دلالت کرتی ہیں اور جن احادیث میں کھڑے ہوکر کھانے پینے سے منع کیا گیا ہے ان کا تعلق محض استحباب سے ہے اور ان میں محض ترغیب ہے کہ بیٹھ کرکھانا پینا چاہئے۔“ امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں : واستدل بهذه الأحاديث على جواز الشرب قائمًا وهو مذهب الجمهور (ارشاد الساری:8/329) ”ان احادیث سے کھڑے ہوکر پینے کے جواز کا استدلال کیا گیا ہے۔ جمہورعلماے اُمت کا بھی یہی موقف ہے۔“ اب ہم آخر میں حافظ صلاح الدین یوسف کا توضیحی اقتباس پیش کرکے اس بحث کو سمیٹتے ہیں فوائد: ابتدا میں ذکر کردہ احادیث سے اگرچہ کھڑے کھڑے پانی پینے اور کھانے کا جواز ملتا ہے۔ لیکن ان پر عمل صرف بوقت ِضرورت (یا مجبوری) ہی کیا جاسکتا ہے، ورنہ اصل مسئلہ یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو، بیٹھ کر ہی کھایا پیا جائے، یہی افضل عمل ہے۔ آج دعوتوں میں کھڑے کھڑے کھانے کا رواج عام ہوگیا ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ اس میں سہولت یہ ہے کہ بیک وقت سارے لوگ فارغ ہوجاتے ہیں ۔ لیکن دوسری طرف اس کی قباحتوں کو جو اس ایک سہولت کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں ، نہیں دیکھتے۔ اس میں ایک تو مغرب کی نقالی ہے جو کہ حرام ہے۔ دوسرے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر کھانے پینے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ تیسرے، اس میں جو بھگدڑ مچتی ہے وہ کسی باوقار اور شریف قوم کے شایانِ شان نہیں ۔ چوتھے، اس میں ڈھور ڈنگروں کے ساتھ مشابہت ہے۔ گویا اشرف المخلوقات انسانوں کو ڈھور ڈنگروں کی طرح چارہ ڈال کر کھول دیا جاتا ہے۔ پھر جو طوفانِ بدتمیزی برپا ہوتا ہے اس پر جانور بھی شاید شرما جاتے ہوں ۔ پانچویں ، انسان نما جانوروں کو باڑے یا اصطبل میں جمع کرنے کے لئے وقت پر آنے والوں کو نہایت اذیت ناک انتظار کی زحمت میں مبتلا رکھا جاتا ہے جس سے ان کا قیمتی وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور انتظار کی شدید مشقت بھی برداشت کرنی پڑتی ہے۔ ششم، اس انتظار کی گھڑیوں میں یا تو فلمی ریکارڈنگ سننے پر انسان مجبور ہوتا ہے یا بھانڈ میراثیوں کی جگتیں یا میوزک کی دھنیں سننے پر۔ ہفتم، یہ کہ اس طرح کھانا بھی بہت ضائع ہوتا ہے۔ بہرحال دعوتوں میں کھڑے کھڑے کھانے کا رواج یکسر غلط ہے اور مذکورہ سارے کام بھی شیطانی ہیں ۔ اس لئے دعوتوں کا یہ انداز بالکل ناجائز اور حرام ہے، اس کے جواز کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔“
Flag Counter