مجبوری کے تحت کھڑے ہوکر کھانے پینے کی گنجائش ہے، جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے، اس کے باوجود کتب ِحدیث میں بیان ہے کہ ایک بار آپ نے کھڑے ہوکر پیشاب کیا تھا۔ علماء حدیث نے اس کی شرح میں صراحت کی ہے کہ آپ کا یہ عمل بیانِ جوازکے لئے تھا اور بعض کا خیال ہے کہ آپ نے اس مقام کی نجاست کی بنا پر کھڑے ہوکر پیشاب کیا تھا یا آپ کے گھٹنوں میں درد تھا جس کی وجہ سے آپ کے لئے بیٹھنا ممکن نہ تھا۔ بہرحال و جہ کچھ بھی ہو، ممانعت کے حکم کے باوجود آپ نے یہ عمل کرکے واضح کردیا کہ اگر کبھی بہ امر ضرورت کھڑے ہوکر پیشاب کرلیا جائے تو اس کی گنجائش ہے۔ یہی صورت کھانے پینے کی ہے کہ کھڑے ہوکر کھانے پینے کو عادت بنا لینا خلاف ِ سنت اور غیر مستحسن ہے۔ تاہم کسی ضرورت کے تحت کبھی اگر کھڑے ہوکر کچھ کھا پی لیا جائے تو اس کی گنجائش ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ جن احادیث میں کھڑے ہوکر کھانے پینے سے منع کیا گیا ہے، ان میں یہ حکم تحریم کے لئے نہیں بلکہ محض تنزیہ (کراہت)کے طور پر ہے۔ (1) عن أم الفضل بنت الحارث أن ناسًا اختلفوا عندها يوم عرفة في صوم النبي صلی اللہ علیہ وسلم فقال بعضهم: هو صائم وقال بعضهم ليس بصائم فأرسلتُ إليه بقدح وهو واقف على بعيره فَشَرِبَه (صحیح بخاری: کتاب الحج، حدیث:1661، کتاب الصوم، حدیث:1988، کتاب الاشربہ، حدیث:5618) ”اُمّ الفضل دختر حارث کا بیان ہے کہ عرفہ کے دن ان کے ہاں لوگوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روزہ کی بابت اختلاف ہوگیا۔ بعض نے کہا کہ آپ نے روزہ رکھا ہوا ہے اور بعض نے کہا کہ آپ روزہ سے نہیں تو میں نے آپ کی خدمت میں ایک پیالہ بھجوایا، آپ اس وقت اپنے اونٹ پر کھڑے تھے۔ چنانچہ آپ نے وہ پی لیا۔“ (2) عن أنس بن مالك أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم دخل على أم سليم وفي البيت قربةٌ معلقةٌ فشرِب مِنْ فِيْهَا وهوقائمٌ قال فقطعت أمُّ سليم فَمَ القِرْبَةِ فهو عندنا (سنن دارمی:کتاب الاشربہ، باب فی الشرب قائما، حدیث:2130 اور شمائل ترمذی، باب ماجاء فی صفة شرب رسول اللھ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسنداحمد:3/119، 6/376،431) ”انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے۔ ان کے گھر |