عمل کو عادت بنانا اور بیٹھ کر پیشاب کرنے کی طرح یکساں حیثیت دینا درست نہیں ہے۔ بلکہ ترجیح اور اصل حیثیت پہلی صورت کو ہی حاصل رہے گی اور ان کی گنجائش بہ امر ضرورت ہی نکالی جاسکتی ہے۔ یوں بھی یہ دونوں کام غیرمسلموں کی گہری مشابہت کا پہلو بھی رکھتے ہیں ، نیز طبی نقطہ نظر سے بھی ان کی حمایت نہیں ملتی، چنانچہ اصل اور شریعت کے قریب طریقہ وہی ہے جس پر اسلامی معاشرہ عمل پیرا ہے۔ البتہ دوسرے طریقے کو علیٰ الاطلاق حرام قرار نہیں دیا جاسکتا۔ (ح م) …………………………………… ایک دفعہ چند عرب مشائخ کی معیت میں بھکر کی ایک مسجد میں جانے کااتفاق ہوا۔ ہم مغرب کی اذان سے تھوڑی ہی دیر قبل وہاں پہنچے۔ عرب مشایخ تحية المسجدکا بہت زیادہ التزام کرتے ہیں ۔ چونکہ مغرب کی اذان ہونے والی تھی۔ ایک صاحب نے کھڑے ہوکر نماز کا انتظار کیا۔ اس دوران اُنہیں پانی پینے کی ضرورت محسوس ہوئی تو انہوں نے کھڑے کھڑے پانی نوش کرلیا۔ وہاں ایک نوجوان موجود تھے جن کی نیکی اور علم دوستی پر کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا۔ وہ کتب ِحدیث کے اُردو تراجم کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں ۔ اُنہوں نے دیکھا تو برداشت نہ کرسکے اور آداب ِ محفل اور آداب ِ میزبانی کو پس پشت ڈال کر ناشائستہ انداز میں بحث شروع کردی۔ اُنہیں سمجھایا گیا کہ واقعی کھانے پینے کے آداب میں یہ بات شامل ہے کہ بیٹھ کر کھانا پینا چاہئے۔ تاہم اگر کبھی کبھار آدمی کھڑے ہوکر کھا یا پی لے تو اس کی گنجائش ہے۔ مگر وہ نوجوان اپنی بات پر مصر رہے بلکہ انہوں نے نازیبا انداز سے مجادلہ شروع کردیا۔ چند ایک اور مواقع پر بھی اس قسم کی صورت ِ حال پیش آئی تو مناسب معلوم ہوا کہ اس موضوع پر حاصل مطالعہ کو مرتب کردیا جائے تاکہ اس کا افادۂ عام ہو۔ اصل موضوع کو شروع کرنے سے پہلے یہ وضاحت کردینا مناسب ہے کہ راقم الحرو ف نے کبھی کھڑے ہوکر کھانے پینے کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ البتہ اس بارے میں اس کا موقف یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر کھانے پینے سے واقعی منع فرمایا ہے۔البتہ آپ نے اور بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بسا اوقات کھڑے ہوکر کھایا اور پیا ہے۔ اس لئے کسی ضرورت یا |