Maktaba Wahhabi

33 - 62
ہیں : ما أعلم أحدا يدفعه بحجة مجھے علم نہیں کوئی بدلائل اس میں جرح و قدح کرسکتا ہو۔ ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے جرح کے باوجود اس کو ’صالح الحدیث‘ قرار دیا ہے۔ اور ابن حبان نے اس کا تذکرہ ثقات میں کیا ہے۔ ابراہیم الحربی نے کہا: وراق ثقہ ہے، جھوٹ کی تلقین کی صورت میں انکاری ہوتا، یعنی جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ حافظ ابن حجر رقم طراز ہیں کہ امام احمد بن حنبل نے اس کے بارے میں یہ بھی کہا ہے: لابأس به (تہذیب التہذیب : 1/64) اس کا مطلب یہ ہے کہ چوتھے درجے کا راوی ہے جو بمطابق اصطلاحِ محدثین قابل حجت ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حافظ موصوف کا رجحان بھی اس کی توثیق کی طرف ہے۔ ان شواہد کی بنا پر علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو ثقات کے زمرہ میں شمار کیا ہے۔ ثانیاً: محمد بن اسحق کی تدلیس کا جواب یہ ہے کہ سیرت ابن ہشام میں ابن اسحق کی تحدیث کی تصریح موجود ہے، اس طرح یہ اعتراض بھی رفع ہوجاتا ہے۔ الفاظ یوں ہیں : قال ابن اسحٰق حدثني محمد بن جعفر بن الزبير ان وجوہات کی بنا پر حافظ ابن حجر، ابن دقیق العید اور شیخ البانی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے اور یہی بات راجح ہے۔جرح و تعدیل کے سلسلہ میں ’توضیح الافکار‘ کے حواشی پر علامہ محمد محی الدین عبدالحمید رقم طراز ہیں : واختار شيخ الاسلام تفصيلاً حسنا،فإن كان من جرح مجملًا قد وثقه أحد من أئمة هذا الشأن لم يقبل الجرح فيه من أحد كائنا من كان إلا مفسرًا، لأنه قد ثبتتْ له رتبة الثقة فلا يزحزح عنها إلا بأمر جلي فإن أئمة هذا الشأن لا يوثقون إلامن اعتبروا حاله في دينه ثم في حديثه نقدوه كما ينبغي،وهم أيقظ الناس،فلا ينقض حكم أحدهم إلا بأمر صريح وإن خلا عن التعديل قبل الجرح فيه غير مفسر إذا صدر من عارف، لأنه إذا لم يعدل فهو في حيز المجهول وإعمال قول المجرح فيه أولىٰ من إهماله. انتهى كلامه (2/135) ” (کس طرح کی جرح قبول ہو گی؟اس کے بارے میں ) شیخ الاسلام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تفصیل کے پہلو کو اختیار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی راوی کے بارے میں جرح مجمل ہو،لیکن فن
Flag Counter