حدیث کے کسی امام نے اس راوی کو ثقہ قرار دیا ہے تو اس صورت میں خواہ کوئی بھی ہو،اس راوی پر اس کی مجمل جرح کو قبول نہیں کیاجائے گا،بلکہ اس صورت میں جرح مفسر ہی قابل قبول ہو گی،کیونکہ اس کی ثقاہت ثابت ہو چکی ہے اور کسی واضح امر کے بغیر اس کی ثقاہت کو زائل نہیں کیاجا سکتا ،کیونکہ ائمہ فن نہایت بیدار مغز لوگ تھے۔وہ کسی شخص کو ثقہ قرار دینے سے پہلے اس کی دینی حالت کاجائزہ لیتے، اس کی حدیث کو اچھی طرح پرکھتے تھے ۔تو اگر ان میں سے کسی نے پوری تحقیق اور چہان بین کے بعد کسی شخص کے ثقہ ہونے کا فیصلہ دیا ہے تو کسی واضح دلیل کے ساتھ ہی اس فیصلہ کو ردّ کیا جا سکتا ہے،البتہ اگر کسی نے اس کی تعدیل نہیں کی تو تب غیر مفسر جرح بھی قبول کر لی جائے گی، بشرطیکہ وہ کسی ماہر فن کی طرف سے ہو کیونکہ جب کسی نے بھی اس کی تعدیل وتوثیق نہیں کی تو گویا وہ مجہول ہے اور کسی مجہول شخص پر جرح کرنیوالے کی بات کو قابل عمل قرار دینا اسے متروک اور مہمل قرار دینے سے زیادہ بہتر ہے۔“ نومولود کے کان میں اذان و اقامت کہنا ٭ سوال: نومولو بچے کے کان میں اذان اور اقامت کہنے والی حدیث کہاں ہے اور کیا وہ حدیث صحیح ہے؟ اگر وہ حدیث صحیح نہیں ہے تو پھر جو عام طور پر کہا جاتا ہے کہ نومولود بچے کے کان میں اذان و اقامت کہنے سے بچہ ’مسلمان‘ ہوجاتا ہے تو پھر نومولود بچے کو ’مسلمان‘ کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ مفصل دلائل پیش فرمائیں ۔ (محمد شفیق کمبوہ، والٹن لاہور ) جواب: نومولود بچے کے کان میں اذان کے بارے میں ابورافع کی حدیث میں تصریح موجود ہے۔امام احمد، ابوداوٴد، ترمذی، علامہ البانی وغیرہ نے اس پر ’حسن ‘کا حکم لگایا ہے، لہٰذا قابل عمل ہے اور اقامت کا ذکر کسی قابل استناد حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ واضح ہو کہ اسلام دین فطرت ہے۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ مسلمان ہی ہوتا ہے، نئے سرے سے مسلمان کرنے کی ضرورت نہیں ۔اذان صرف تعمیل شرع کی بنا پر ہے نہ کہ اسلام میں داخل کرنا مقصود ہے۔ |