محمّد بن إسحٰق عن محمّد بن جعفر بن الزبير عن عروة بن الزبير عن امرأة من بني النجار قالت كان بيتي من أطول بيت كان حول المسجد فكان بلال يوٴذن عليه الفجر … الخ“ (سنن أبوداود: كتاب الصلوٰة،باب الأذان فوق المنارة) علامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو ضعیف سنن ابوداوٴد میں نقل نہیں کیا،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے،واللہ اعلم۔ البتہ شیخ حافظ عبدالمنان نورپوری اپنی کتاب ’احکام و مسائل‘ جلداوّل میں ’اذان واِقامت‘ کے بیان میں ’اذان سے قبل الصلوٰة والسلام کہنا‘ کے بیان میں مذکورہ حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں : اوّلاً: تو اس لئے کہ اس روایت کی سند کمزور ہے اور اس کمزوری کی دو وجہیں ہیں : (1)اس کی سند میں احمد بن محمد بن ایوب نامی ایک راوی ہیں جن کے متعلق یعقوب بن شیبہ کہتے ہیں :”ليس من أصحاب الحديث وإنما كان ورّاقا“ اور ابواحمد حاکم فرماتے ہیں : ”ليس بالقوي عندهم“ نیز یحییٰ بن معین کہتے ہیں :”هوكذاب“ (2) اس کی سند میں محمد بن اسحق ہیں جن کے متعلق حافظ ابن حجر لکھتے ہیں : ”إمام المغازي صدوق يدلس ورمي بالتشيع والقدر“ اُصولِ حدیث کی کتابوں میں ہے کہ مدلس راوی جب تک اپنے شیخ سے سماع کی تصریح نہ کرے، تب تک اس کی روایت قابل قبول نہیں اور مندرجہ بالا روایت محمد بن اسحق نے بصیغہ ’عن‘ بیان کی ہے، اپنے سماع کی تصریح نہیں فرمائی۔(محمد شفیق کمبوہ ،والٹن لاہور) جواب: مشار الیہ حدیث موصوف کی صحیح ابوداوٴد میں ہے، انہوں نے کافی وافی بحث سے اس کا حسن ہونا ثابت کیا ہے۔ علامہ نورپوری حفظہ اللہ کا حدیث ہذا کو دووجوہات سے ضعیف قرار دینامحل نظر ہے۔ اوّلاً راوی احمد بن محمدبن ایوب کے بارے میں بعض اصحاب ِفن سے صرف جرح نقل کی ہے جبکہ دیانت و امانت اور انصاف کا تقاضا تھا کہ معدلین کی تعدیل بھی ذکر کرتے پھر جرح و تعدیل کے قواعد و ضوابط کے مطابق صحت و ضعف کا حکم لگاتے۔افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا۔ عثمان دارمی کا بیان ہے کہ امام احمد اور امام علی بن مدینی اس کے متعلق اچھی رائے رکھتے تھے: يحسنان القول فيه۔ ایسے ہی عبداللہ بن احمداپنے والد سے بیان کرتے |