Maktaba Wahhabi

36 - 77
الفاعل والمفعول به) (احمد:1/300،ابوداوٴد:4462،ترمذی:1456،ابن ماجہ:561) ”جس کو تم قومِ لوط کے جرم کا ارتکاب کرتے پاوٴ، پس فاعل اور مفعول بہ دونوں کو قتل کردو۔“ اس بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فیصلے مختلف ہیں، مثلاً آگ میں جلا دیا جائے، بلند و بالا گھاٹی سے گرا کر پتھروں کی بارش کردی جائے، وغیرہ وغیرہ۔ مذکورہ دونوں مسئلوں میں طویل بحث کے بعد امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کا نظریہ ہے کہ ان پر صرف تعزیر ہے۔٭ (المحلّٰى :11/فعل قوم لوط : 460 اورمسئلہ سحاق: 472) ٭ سحاق(چپٹی) کے بارے میں ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے دو قول ذکر کیے ہیں: پہلا قول علما کی ایک جماعت کا ہے،ان کی رائے یہ ہے کہ دونوں عورتوں کوسو سو کوڑے مارے جائیں،جیسا کہ ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ’’أدرکت علمائنا في المرأۃ تأتي المرأۃ بالرفغۃ وأشباہہا یجلدان مائۃ،الفاعلۃ والمفعولۃ بہا‘‘ ’’میں نے اپنے علما کو یہ کہتے ہوئے پایا کہ اگر عورت کسی عورت کے ساتھ سحاق اور کسی غلط تعلق کا ارتکاب کرے تو ان دونوں کو سو سو کوڑے مارے جائیں۔‘‘ اسی طرح واثلۃ بن أسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :’’السحاق زنا بالنساء بینہن‘‘ ’’سحاق عورتوں کا آپس میں زنا ہے۔‘‘ دو سرا قول دیگر تمام علما کاہے،ان کے نزدیک یہ فعل انتہائی قبیح اور حرام ہے اور اس کی مرتکب عورت پر تعزیر عائد کی جائے گی، البتہ اس پر حد نہیں ہے۔حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے تمام دلائل کا موازنہ کرنے اور چند صحیح نصوص کو ذکر کرنے کے بعد اس فعل کو سنگین جرم ،حرام اوراس کی مرتکب عورت پر حد کی بجائے تعزیر کو واجب قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’یہ نصوص اس بات پر روشن اورواضح دلیل ہیں کہ مرد کامرد سے اور عورت کا عورت سے مباشرت کرنا حرام ہے۔ جس مباشرت سے شریعت میں روکا گیا ہے،اس کا مرتکب اللہ کانافرمان اور ایک حرام فعل کا ارتکاب کر رہا ہے ،خواہ وہ مرد ہو یا عورت ۔جب مباشرت حرام ہے تو اگر مباشرت میں شرمگاہوں کو بھی استعمال کیا جائے تواس سے ا س جرم کی حرمت ،سنگینی اور اللہ کی نافرمانی یقینا اور بڑھ جائے گی۔نیزجب عورت اپنی شرمگاہ میں اپنے خاوند کی شرمگاہ کے علاوہ کوئی اور چیز داخل کرے گی تو اس نے قرآنی حکم ﴿ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ﴾ کو پس پشت ڈال کر شدید معصیت کا ارتکاب کیا ہے۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں:’’جب یہ ثابت ہو گیا کہ سحاق کرنے والی عورت معصیت ِالٰہی اور منکر کا ارتکاب کر رہی ہے توپھراس منکر کو ہاتھ سے روکنا فرض ہے، جیسا کہ رسول اللہ کافرمان ہے ((من رأی منکم منکرًا أن یغیرہ بیدہ)) ’’جو تم میں منکر کا ارتکاب ہوتا دیکھے، اسے اپنے ہاتھ سے روکے۔‘‘ لہٰذا ایسی عورت پر تعزیر ہو گی۔‘‘ ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ کا قول جس سے حد کا ثبوت ملتاہے ،اس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہمارے لیے کسی کی اتباع لازم نہیں ہے۔اور واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کی حدیث کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ اوّلاً تو یہ حدیث صحیح ثابت نہیں،کیونکہ اس میں بقیۃ نامی راوی ضعیف ہے ،نیز مکحول کی واثلہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہ ہونے کی وجہ سے یہ روایت منقطع ہے ۔ اور بالفرض اس حدیث کو صحیح بھی مان لیا جائے تو یہاں مراد وہ زنا نہیں ہے جو حد کو واجب کرتا ہے ،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اعضا زنا کرتے ہیں اورشرمگاہ اس کی تکذیب یا تصدیق کرتی ہے۔‘‘ تو معلوم ہوا کہ قابل حد زنا وہی ہے جو مرد کسی غیر عورت سے شرمگاہ کے ساتھ کرتا ہے ،جیسا کہ ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس کی صراحت موجودہے ۔ دلائل کی بنا پر حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کی بات زیادہ قوی معلوم ہوتی ہے ۔واللہ اعلم (اسلم صدیق)
Flag Counter