اس کی تعبیر(سنت وحدیث) مکمل ہوکربہت پہلے ائمہ سلف اُسے مدوّن بھی کرچکے ہیں۔ البتہ جہاں تک اجتہاد کا تعلق ہے تو پہلے فقہا کے اجتہادات اگرچہ فقہ و فتاویٰ کی ضخیم کتابوں کی صورت میں مدوّن موجود ہیں، تاہم جدید طرز پر ان کی اجتماعی تدوین نو مقصود ہو تو یہ کام غلط نہیں بلکہ جدید موسوعاتِ فقہية کی شکل میں اپنی افادیت کا منہ بولتا ثبوت ہے،بشرطیکہ یہ کام صاحب ِتقویٰ اور علم و بصیرت کے حامل لوگوں کے ہاتھوں ہی انجام پائے۔ لیکن اس وقت اجتماعی اجتہاد کے حوالے سے جس نکتہ پر ہم گفتگوکررہے ہیں، وہ فقہ و اجتہاد کی تدوین نو کا مسئلہ نہیں بلکہ تدوین کے مغالطہ میں تقنين(شریعت کی قانون سازی) کی ضرورت کا ہے، جسے دراصل جدید عربی ذو معنی لفظ’تشریع‘ سے پیش کیا جارہا ہے۔ لہٰذا اس موضوع پر گفتگو کے وقت تدوین و تقنین کا فرق ملحوظ رہنا چاہئے، یعنی تدوین تو فقہ واجتہاد کو ترتیب دینے کا نام ہے جس کی تقلید بالخصوص علما اور قضاة پر لازمی نہیں ہوتی، جبکہ تقنين اپنے الفاظ میں کسی خاص تعبیر وتدوین شریعت کو قانونی جامہ پہنانے کا نام ہے جو حتمی امر ہوکر ایک طرف شریعت سازی اور خدائی اختیارات میں دخل اندازی کا موجب بنتی ہے تو دوسری طرف اسے اجتہاد بھی نہیں قرار |