Maktaba Wahhabi

30 - 142
سمجھتے ہوئے کی ہے۔ اسلام کے عالمی منشور کی بات تو بہت اونچی ہے۔ یورپ اور خاص طور پر امریکہ کے ان نام نہاد علم برداروں نے حقوقِ انسانی کوجس طرح پامال کیا ہے، اس کی مثال بھی تاریخ کے کسی دور میں چنگیز خان کی ہلاکت آفرینوں اور اسپین کی رسوائے زمانہ کلیسائی عدالتوں کی مسلمانوں اور یہودیوں کے ساتھ خون آشام کارروائیوں کے علاوہ اور کہیں نظر نہیں آتی۔ امریکہ نے گوانتاناموبے کے بے گناہ زندانیوں کو جس طرح قیدو بند کی بھیانک صعوبتیں دی ہیں اور انہیں کسی عدالت کے سامنے اپنی شکایتیں تک پہنچانے کا حق بھی دینے سے انکار کردیا۔ اس طرح اس نے انسانی حقوق و انصاف کے پرخچے اُڑا دیئے ہیں ۔ یہ سلسلہٴ دراز یہیں تک ختم نہیں ہوا، عراق کے جیتے جاگتے شہروں کوبے لگام نیوکلیئر طاقت کے زور پر کھنڈروں کے قبرستان میں تبدیل کردیا گیاہے۔ وہاں کے ابوغریب جیل میں بچے، بوڑھے، جوان اور دوشیزاوٴں کے ساتھ جس طرح بہیمانہ، شرم ناک اور لرزہ خیز جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور ان پر خونخوار درندوں کوچھوڑ دیا جاتا رہا ہے، اس پرانسانیت ہمیشہ ماتم کناں رہے گی!! ’نیوکون‘ امریکہ کو اس کی پروا نہیں کہ وہ حقوقِ انسانی کی عالمی عدالت کا اشتہاری ملزم ہے۔ سب سے زیادہ ڈھٹائی کی اور حیران کن بات یہ ہے کہ حقوقِ انسان کی اس کھلی توہین کے باوجود اسی امریکہ کے جمہوریت نواز ہیومن رائٹس بیورونے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے نام سے سالِ گذشتہ کے آخر میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جو سال ۲۰۰۴ء میں منظر عام پر آئی ہے۔ اس رپورٹ میں مسلمان ملکوں کی اچھی طرح خبرلی گئی ہے اور خاص طور پر پاکستان میں مذہب کی بنیاد پر حقوقِ انسانی کی خلاف ورزیوں پر انتہائی تشویش کااظہار کیاگیا ہے۔ ان میں نمایاں طور پر قانونِ توہین رسالت، حدود آرڈیننس اور خواتین کے خلاف قوانین کو ہدفِ تنقید بنایاگیا ہے۔ غالب رحمۃ اللہ علیہ نے غالباً اسی موقع کے لئے کہا تھا: ”خامہ انگشت بدنداں ہے، اسے کیا لکھئے؟“ اس رپورٹ میں یہ نہیں بتلایا گیا کہ اقلیت اور خواتین کے وہ کون سے حقوق ہیں جو ان قوانین کی وجہ سے پامال ہو رہے ہیں ۔ پاکستان کی کس اقلیت کو قانونِ توہین رسالت یا حدود آرڈیننس کے ذریعہ اس کے مذہب میں دخل اندازی کی گئی ہے۔
Flag Counter