’’ اس مقصد کے لئے ضروری ہے کہ شمالی افریقہ کے مختلف جزائر کے متعدد ممالک میں ایسے بے شمار کیمپ لگائے جائیں ، جہاں غریب بچوں کو کھانے، لباس او ر رہائش کی سہولت میسر ہو۔ ‘‘ اس کے بعد وہ لکھتا ہے کہ: ’’ اگر ان رستوں سے مسلمان بچے عیسائی نہیں بنیں گے توکم ا زکم مسلمان بھی نہیں رہیں گے‘‘ اورعیسائی مشنری اس مشن کو مصر اور شمالی افریقہ کے علاقوں میں بھرپور طریقے سے آگے بڑھا رہے ہیں ۔ (التبشیر والاستعمار: ص ۱۹۴) سینی گال کی صورتِ حال یہ ہے کہ وہاں تبشیری تنظیمیں غریب خاندانوں کے ساتھ ایک معاہدہ کرتی ہیں ،جس کی رو سے وہ انہیں ہر ماہ روٹی اور چاول کی صورت میں معمولی سی مالی امداد مہیا کرتی ہیں ؟ اس شرط پر کہ خاندان کے پانچ سال سے کم عمر بچوں پر انہیں مکمل اختیار حاصل ہوگا ۔اس کے بعد اس بچے کی عیسائی نہج پر تربیت کی جاتی ہے اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے اسے فرانس بھیج دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد یا تو اسے تبشیری سرگرمیوں میں منہمک کردیا جاتا ہے، یا پھر مغرب اور عیسائیت کے مفادات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ وائے افسوس کہ جمہوریہ سینی گال کا سابقہ صدر شنگر بھی ان بچوں میں سے ایک تھا جو تبشیری تحریک کا شکار بنا، حالانکہ اس کے والدین او ربھائی بہنیں سب مسلمان تھے۔(احذروا الأسالیب الحدیثۃ، ص ۷۰) 4. ذرائع ابلاغ ، میڈیا پر تسلط حاصل کرنا:جہاں یہ لوگ مصنوعی سیاروں کے ذریعے عیسائیت کا پرچار کر رہے ہیں ، وہاں افریقہ میں ۵۲ ریڈیوسٹیشن ان کے زیر ملکیت ہیں ۔یونڈی Yaounde (کامرون کا دارالخلافہ) میں کلیۃ الدّین کاپرنسپل پوپ شالی لکھتا ہے : ’’آخر کار ہم ذرائع ابلاغ میں مسلمانوں سے آگے نکل گئے ہیں ۔ جہاں آج ہم پہنچ چکے ہیں اورجہاں آج عیسائیت کی آواز پہنچ چکی ہے، ہمارے آباؤاجداد کے محدود ذرائع سے وہاں تک پہنچنا شایددو یا تین سال کے بعد ممکن ہوتا۔ لیکن اب ان وسائل سے وہاں تک پہنچنا ممکن نہیں ہے، جہاں آج عیسائیت کی آواز پہنچ چکی ہے‘‘۔ (مجلہ الرابطہ : عدد۳۶۸) ’’آخرکار ہم ان ذرائع ابلاغ کی مدد سے مسلمانوں سے بہت آگے نکل آئے ہیں ۔جہاں ہم آج پہنچے ہیں اوردو تین سال میں عیسائی تعلیمات پھیلادی ہیں ، وہاں وہ بھی پہنچ سکتے |