ایمان وعقائد اختر حسین عزمی ٭ اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم سے’محبت‘کی جائےیا’عشق‘ ؟ ’حب ِ الٰہی‘اور’عشق الٰہی‘ کا فرق قرآن نے حب ِ الٰہی کو مؤمن کی پہچان اور ایمان کی جان قرار دیا ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا ﷲِ﴾ (البقرۃ:۱۲۵) قرآن میں حب ِ الٰہی کا یہ غیر معمولی مقام اس دلیل کی مضبوطی کا باعث ہے کہ قرآن کا بنیادی تصورِ تزکیہ اللہ کی محبت ہی ہے، نہ کہ اس کی والہانہ اطاعت۔ یہ اطاعت تو اس محبت کا صرف لازمی ثمرہ ہوگی۔ یقینا حبِ الٰہی کی دین میں غیر معمولی اہمیت ایک ناقابل اختلاف حقیقت ہے۔ تاہم صوفیا کے ہاں ’حب ِالٰہی‘ کی بجائے ’عشق الٰہی‘ کی اصطلاح مستعمل ہے۔ یہ ثابت کرنے کے لئے کہ دین کااصل تصورِ تزکیہ قرآن کے نزدیک بھی عشق الٰہی ہی ہے، دو باتوں کا ثابت شدہ ہونا ضروری ہے: ایک یہ کہ قرآن میں جس محبت ِالٰہی کا ذکر ہے، اس کا حقیقی مفہوم وہی ہے جو عشق الٰہی کا ہے اور دوسری یہ کہ قرآنی ارشادات اور اسالیب ِکلام کی رو سے اللہ کی یہ محبت ہی ا س کے دین کا بنیادی تصور ہے۔ کیا حقیقت ِواقعی یہی ہے؟ قرآن کی داخلی شہادتیں اس سلسلے میں کیا فیصلہ دیتی ہیں ، یہ دیکھنے کی ضرورت ہے… قرآن اورحب ِالٰہی پہلی بات یہ ہے کہ قرآن میں صرف ’محبت‘ ہی کا لفظ استعما ل ہوا ہے جبکہ لفظ ’عشق‘ سے مکمل اجتناب برتا گیا ہے۔ انسانی کلام میں تو بے سوچے سمجھے بھی الفاظ کا استعمال ہوجاتا ہے لیکن کلامِ الٰہی کے ایک ایک لفظ کے انتخاب میں کوئی احتیاط، کوئی موزونیت اور کوئی معنویت ایسی نہیں ہوتی جو فکر ونظرسے اوجھل رہ گئی ہو۔ یہاں لفظ ’عشق‘ سے اجتناب کی کوئی نہ ٭ لیکچرار ، گورنمنٹ کالج ، پتوکی |