کوئی وجہ اور مصلحت ضرور ہے اور وہ اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے کہ حب ِالٰہی کے لفظ کے جو معنی تھے، وہ اللہ کے نزدیک ’عشق الٰہی‘ کے لفظ کے معنی و مراد سے مختلف تھے اور چونکہ قرآن کو مطلوب قلب ِمؤمن کی وہ کیفیت تھی جس کی تعبیر وہ ’حب ِالٰہی‘ کے لفظ سے کرتا ہے، نہ کہ وہ کیفیت جس کا نام ’عشق الٰہی‘ ہے۔ اس لئے اس نے بالکل ضروری سمجھا کہ کہیں ایک جگہ بھی عشق کا لفظ نہ آنے پائے۔ یہ بات صحیح ہے کہ اہل لغت نے عشق کے معنی فرط الحب کے لکھے ہیں ۔ گویا کہ ان کے ہاں محبت ِالٰہی اور عشق ِالٰہی میں فرق اصل اور حقیقت کا نہیں بلکہ صرف درجات کا ہے۔ یعنی محبت ادنیٰ درجے کی چیز اور عشق اعلیٰ درجے کی۔ دوسرے لفظوں میں یہ محبت جتنی بڑھتی جائے گی، اللہ کی نظروں میں اتنی ہی زیادہ پسندیدہ ہوتی جائے گی۔ یہاں تک کہ اگر وہ حد سے زیادہ بڑھے گی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن کا مطالبہ ٔ حب ِالٰہی بہترین شکل میں پورا ہوگیا اور حد سے زیادہ بڑھ جانے والی محبت ہی کا نام ’عشق‘ ہے۔ اس لئے عشق اور محبت میں فرق کے باوجود عشق کے مطلوبِ تزکیہ ہونے پر کوئی حرف نہیں آسکتا۔ یہ اندازِ فکر بظاہر بڑا مدلل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر قرآن کے نزدیک بھی اس کی مطلوب محبت ِالٰہی وہی محبت تھی جو بڑھ کر عشق بن جاتی ہے تو آخر کس چیز نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اس عندیے کے صاف صاف اظہار سے روک دیا تھا؟ آخر ایسا کیوں نہ ہوا کہ وہ کم از کم ایک ہی بار صراحت سے فرما دیتے کہ محبت ِالٰہی اگر مطلوب ہے تو عشق الٰہی مطلوب تر ہے۔ قرآن نے نہ تو کبھی عشق کا لفظ استعمال کیا اور نہ کہیں اس کے مخصوص عملی تقاضوں کو محبت ِالٰہی کے تقاضوں کی حیثیت سے پیش کیا۔ یہ دُہری حقیقت اس امرکی کھلی شہادت ہے کہ محبت ِالٰہی اور چیز ہے اور عشق الٰہی دوسری چیز۔ دونوں میں صرف درجات کا نہیں ، بلکہ بنیادی نوعیت کا فرق ہے۔ حب ِالٰہی کی اصل نوعیت حب ِالٰہی کی اصل حقیقت پر جن آیتوں سے روشنی پڑتی ہے، ان میں سے سب سے |