Maktaba Wahhabi

32 - 62
زیادہ واضح یہ آیت ہے:﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ ﷲِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَہُمْ کَحُبِّ ﷲِ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا ﷲِ﴾ (البقرۃ:۱۶۵) ’’ بعض لوگ ایسے بھی جواللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں ۔‘‘ اس آیت میں ا س محبت کو جو مشرکین ِعرب اپنے معبودوں سے رکھتے تھے، بنیادی طور پر اس محبت کے مشابہ قرار دیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ سے ہونی چاہئے۔ گویا کہ قرآن نے جس حب الٰہی کو مطلوب ٹھہرایا ہے وہ اسی طرح کی محبت ہے جو مشرکوں کے دلوں میں اپنے معبودوں کے لئے پائی جاتی تھی۔ یہ محبت کس طرح کی تھی؟ کیا یہ طبعی نوعیت کی اور عشق الٰہی کے معنی و مفہوم کی تھی یا عقلی و اعتقادی قسم کی تھی؟ کیا وہ اپنے معبودوں کو اس نظر سے دیکھتے تھے جس نظر سے ایک عاشق اپنے محبوب کو دیکھتا ہے یا ایسی نظر سے جس سے کوئی اپنے عظیم المرتبت محبوب آقا، حاجت روا اور محسن و ولی ِنعمت کو دیکھتا ہے۔ کیا ان کا منتہائے مقصود اپنے معبودوں کی عبادت سے یہ تھا کہ انہیں ان کا دیدار اور وصال حاصل ہوجائے جیسا کہ ایک عاشق کا ہوا کرتا ہے یا یہ تھا کہ ان کی خوشنودی حاصل ہوجائے۔ ہر واقف ِحال جانتا ہے کہ مشرکوں کو اپنے معبودوں کے ساتھ جو محبت تھی، وہ دوسری قسم کی اور دوسرے معنوں میں تھی، پہلے معنوں میں ہرگزنہ تھی۔ ان کا رویہ ان کے بارے میں طالب ِرضا کا تھا، طالب ِو صال کا نہ تھا اور مقصود یہ تھا کہ انہیں ان کی نظر کرم اور خوشنودی حاصل ہوجائے۔ قرآن نے اپنی مطلوبہ محبت ِالٰہی کو اس محبت کے مشابہ قرار دے کر گویا خود ہی یہ بات واضح کردی کہ مجھے جو محبت ِالٰہی مطلوب ہے، وہ بنیادی طور پر اسی قسم کی محبت ہے نہ کہ کسی اور قسم کی۔ اپنی مطلوبہ محبت کو قرآن نے مشرکوں کی ’محبت ِانداد‘ کے مشابہ قرار دیا ہے ۔ تاہم ا س کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ یہ محبت اپنی وسعت اور گہرائی میں بھی اس کے بقدر ہے بلکہ صرف یہ ہے کہ اپنی بنیادی نوعیت کے اعتبار سے اس کے مطابق ہے۔ دوسری آیت:﴿قُلْ إنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ ﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ ﷲُ﴾ (آل عمران: ۳۱)
Flag Counter