’’(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !) کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خو د اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا۔‘‘ اس آیت سے اتباعِ رسول کے ساتھ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اپنے صحیح اور معیاری مفہوم میں ٹھیک وہ محبت ہے جو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر موجود تھی۔ قلب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے اللہ سے جو محبت موجزن تھی، وہ کس نوعیت کی تھی؟ ا س کا جواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی ہی دے سکتی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ حیاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال صاف پکارتے ہیں کہ وہ جس تخم محبت کے برگ و بار ہیں ، وہ اصلاً اللہ تعالیٰ کی عقلی واعتقادی محبت ہے نہ کہ طبعی و عشقی محبت، کیونکہ طبعی محبت (عشق) کے اَعمال و مظاہر بالکل دوسرے ہوتے ہیں ، وہ نہیں ہوتے جو حیاتِ مبارکہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآنی ارشادات سے واضح محبت ِالٰہی کی یہ نوعیت اہل نظر سے کبھی پوشیدہ نہیں رہی۔چنانچہ ابن عطا رحمۃ اللہ علیہ نے محبت ِالٰہی کی مشیت ان الفاظ میں بیان کی: ’’أغصان تغرس في القلب فتثمر علی قدر العقول‘‘(۱) ’’ اس کی شاخیں دل میں پیوستہ ہیں اور اس کی ثمر آوری بقدرِ عقل ہوتی ہے۔‘‘ علی قدر العقول کے الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ کہنے والے کے نزدیک محبت ِالٰہی کا اصل سرچشمہ انسانی عقل ہے نہ کہ طبعی جذبات۔ سید اسمٰعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کی ذیل کی عبارت سے اس کی مزید وضاحت ہوتی ہے، فرماتے ہیں : ’’این جانکتہ ایست بس باریک کہ اکثر اہل زماں ازاں در غفلت و نسیان اندوآں تمیز است درمیان حب ِنفسانی کہ ملقب بعشق است و حب ِایمانی کہ مشہور بحب ِعقلیت‘‘(۲) ’’ یہاں ایک باریک نکتہ ہے جسے اکثر وبیشتر لوگ سمجھ نہیں پاتے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ ’حب نفسانی ‘جسے عشق کے ساتھ ملقب کیاجاتا ہے اور ’حب ایمانی ‘جو ’حب عقلی‘ سے مشہور ہے میں فرق پایا جاتا ہے۔‘‘ شاہ صاحب کے بیان سے نہ صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ حب ِنفسانی، عشق کا اور حب ایمان، حب ِعقلی کا نام ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی مطلوبہ محبت دوسری ہے نہ کہ پہلی۔ مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ خود راہِ تصوف کے راہی ہیں ، ان کا ارشاد بھی اس باب میں |