Maktaba Wahhabi

34 - 62
صریح ہے، فرماتے ہیں : ’’خدائے تعالیٰ سے جس محبت کا امر ہے، وہ حب ِعقلی ہے نہ کہ طبعی۔ اس لئے نصوص میں حب ِطبعی یعنی ’عشق‘ کا عنوان کہیں مذکور نہیں بلکہ جابجا حب کا ذکر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حب ِطبعی مطلوب نہیں ، بلکہ حب ِعقلی مطلوب ہے۔‘‘ (۳) مولانا امین احسن اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ نے تعلق باللہ کی اساسات میں محبت کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ لفظ عشق کے استعمال کو تزکیہ کے قرآنی منہج کے مطابق ناقابل قبول قرار دیا ہے، وہ فرماتے ہیں : ’’ یہ امر نگاہ میں رہے کہ ہم نے لفظ ’محبت‘ استعمال کیا ہے، ’عشق‘ یا اس قسم کا کوئی لفظ استعمال نہیں کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قرآن وحدیث میں یہی لفظ استعمال ہوتا ہے، کہیں عشق کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے۔ ہمارے نزدیک اس کی ایک خاص وجہ ہے۔ وہ یہ کہ لفظ ’عشق‘ ایک غیر متوازن کیفیت پر دلیل ہوتا ہے۔ اس لئے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس کا استعمال نہ صرف ناموزوں ہے بلکہ اس میں احتمال سوء ادب کا بھی ہے۔ اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بندوں کے سارے معاملات حدودِ شریعت کے پابند ہیں ۔ اگر بال برابر بھی ان سے تجاوز ہوجائے، تو گو یہ تجاوز جذبہ عشق کی تحریک ہی سے ہو، لیکن اس سے بدعت و ضلالت میں پڑ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔‘‘(۴) صوفیا کے ہاں لفظ ’محبت‘کی جگہ ’عشق‘ کی اصطلاح کیوں مروّج ہوئی، اس بارے میں مولانا اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ’’انہوں نے محبت کے عام اور معروف لفظ کو اپنے جذبہ محبت کی تعبیر سے قاصر پایا اور ا س کی جگہ لفظ عشق کو اختیار کیا جو ان کے ہاں اصل محبوب لفظ ہے۔ اگرچہ بظاہر یہ ایک نزاعِ لفظی ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس عشق نے تصوف میں جو بدعتیں داخل کی ہیں ، ان کا شمار ممکن نہیں ۔ محبت، عشق کی طرح کوئی مبہم، مجہول اور بے قید چیز نہیں ہے، بلکہ ایک معروف، معین اور پابند ِآئین چیز ہے۔ یہ ایک جانی پہچانی کسوٹی ہے جس پر آدمی اپنے آپ کو بھی اور دوسروں کو بھی پرکھ کر دیکھ سکتا ہے کہ کس کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ سب سے زیادہ محبت ہے۔‘‘(۵) حب ِالٰہی کا عملی اظہار قرآنِ مجید نے حب ِالٰہی کے عملی مفہوم کی کئی جگہ وضاحت کی ہے۔ مذکورہ صدر آیت :
Flag Counter