Maktaba Wahhabi

51 - 62
۵۷ فیصد ہوگئی ہے۔ اسی طرح ۱۹۷۰ء میں افریقہ میں عیسائیوں کی کل تعداد 12,02,57,000 تھی۔ ۱۹۹۹ء میں یہ تعداد بڑھ کر 33,33,68,000 ہوگئی ہے۔ مذکورہ بالا رپورٹ ایک ہوشمند مسلمان کے ہوش اڑا دینے کے لئے کافی ہے۔ ( ملاحظہ ہو :معاول الہدم والتدمیراز إبراہیم سلیمان الجبہان ص ۱۹ / مجلۃ الرابطۃ : عدد۳۶۸ / حاضر العالم الإسلامی:۲/۶۷۲ اور مجلۃ الکوثر: شمارہ۲ / انٹر نیٹ پرایک مشنری ویب سائٹ بعنوان prayer watch morris cerullo world evangelism ) افریقہ میں تبشیری تحریک کے پیش نظر مقاصد براعظم افریقہ میں بھی تبشیری تحریک کے پیش نظر عموماً وہی مقاصد ہیں جو دوسرے براعظموں میں ہیں ۔ لیکن افریقہ اس لحاظ سے دیگربراعظموں سے ممتاز ہوجاتا ہے کہ وہاں تبشیری تحریک کے پیش نظر ایک خاص ہدف کارفرما ہے اور وہ یہ کہ : ۲۰۰۰ء میں افریقہ کو عیسائی براعظم میں تبدیل کرنے کی مہم پایۂ تکمیل کوپہنچ جائے تاکہ وہ سیاسی، تعلیمی اور اقتصادی میدان میں تسلط حاصل کر کے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں ۔ یہی وہ مقصد تھا جس کا اظہار اسقف ِاعظم ثانی نے ۱۹۹۳ء میں روم میں میلادِ مسیح کے موقع پر اپنے استقبال کے لئے آنے والے افریقی بشپوں کے وفد کے سامنے ان الفاظ میں کیا تھا : ’’ اب افریقی کلیسا کی ذمہ داری تمہارے سر ہے۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ اہل کلیسا پیغام الٰہی کو لے کر اُٹھ کھڑے ہوں ۔ اے بشپو ! تمہارے سر ایک بہت بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے ۔ وہ یہ ہے کہ ۲۰۰۰ء کے اندر اندر تمہیں پورے افریقہ کو حلقہ بگوشِ عیسائیت کرنا ہے‘‘۔ (مجلہ ’الرابطہ‘ :۳۶۸) اور پھر عیسائیوں نے ویٹی کن،عالمی چرچ کمیٹی اور دوسری تبشیری تنظیموں کے درمیان مکمل یکجہتی سے براعظم افریقہ کو اس صدی کے اختتام تک عیسائی بنانے کے لئے اپنی تمام تر تبشیری، مادّی اور علمی قوتیں صرف کردیں ۔ پوپ نے پانچ سالوں کے دوران افریقہ کے تین دورے کئے اور عیسائیت کا پیغام پہنچانے کے لئے افریقہ کے مشرق و مغرب میں گھوما۔(حاضر العالم الاسلامي :۲/۶۷۲)
Flag Counter