اس کی ایک مثال وہ واقعہ بھی ہے جو ہمیں ایک مصری نے سنایا۔ وہ ایک تعلیمی وفد کے ساتھ امریکہ کے کسی شہر گیا اور ایک مسیحی عورت ’ورعہ‘ کے مکان میں کرایہ پرٹھہرا۔ عورت نے اپنے مہمان سے پوچھا کہ آپ کا تعلق کس ملک سے ہے؟ جب عورت کو معلوم ہوا کہ یہ شخص مصری اور مسلمان ہے تو اس نے ہمدردی اور غم کے ملے جلے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اس سے کہا : ’’کیا تمہارے ملک میں کوئی مشنری نہیں آیا؟‘‘ (نہضۃ أفریقیا:ص۱۰۳) 6. سیاسی اور اقتصادی مقاصد کا حصول :یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ یہود و نصاریٰ کی سیاسی شخصیات اپنے استعماری عزائم و مقاصد کو بروئے کار لانے اور پوری دنیا پر سیاسی اور اقتصادی تسلط قائم کرنے کے لئے ہر وہ حربہ استعمال کرنا چاہتی ہیں ،جو ان کے اِمکان میں ہے، خواہ وہ دینی راستے سے ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ یہ سیاستدان اپنے مقاصد کے حصول کے لئے تبشیری مشنوں کی سرپرستی کررہے ہیں اور ان کی کانفرنسوں کی صدارت کے فرائض انجام دیتے ہیں ۔(مجلہ ہٰذہ سبیلي: عدد:۲،ص۲۸۷) افریقہ میں عیسائیت کی آمد، سرگرمیوں کا آغاز اور استعمار سے ملی بھگت مسلمہ حقائق یہ ثابت کرتے ہیں کہ مشنری سرگرمیوں کا استعمار کے ساتھ گہرا رابطہ تھا۔ استعماری طاقتیں انہیں مکمل سپورٹ کر رہی تھیں اور اسی دوران تبشیری سرگرمیوں کو پھیلنے پھولنے کا خوب موقع ملا۔ کیتھولک مشنری پندرہویں صدی عیسوی میں افریقی علاقوں میں داخل ہوئے اور انہوں نے مسلمانوں کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب پرتگال دنیا کے نقشہ پر نمودار ہوا۔ (الغارۃ علی العالم الاسلامی:ص ۲۶) سترہویں صدی کے اواخر اور اٹھارویں صدی کے درمیان پروٹسٹنٹ تنظیمیں بھی آدھمکیں اور انہوں نے مسلمانوں کو اپنا ہدف بنایا۔(حاضر العالم الاسلامی: ۲/۶۷۱) سب سے پہلے مشہور سیاح لنٹگسٹن(۱۸۷۳م) نے وسطی افریقہ کے ممالک کا سفر |