نہیں کر سکتا کہ تعلیم ترقی کا ایک اہم زینہ ہے۔ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ’’تعلیم وہ سلفر ایسڈ ہے جو زندہ چیز کو پگھلا دیتا ہے، پھر اسے ڈھال کر اپنی مرضی کا مجسمہ تیار کرتا ہے۔ یقینا یہ سلفر ایسڈ تمام کیمیاوی مادّوں سے زیادہ طاقتور اور مؤثر ہے اور ا س کے اندر یہ طاقت ہے کہ وہ کسی عظیم نسل کو مٹی کا ڈھیر بنا دے۔‘‘ (احذروا الأسالیب الحدیثۃ في مواجھۃ الاسلام از ڈاکٹر سعد الدین السید الصالح) عیسائی مشنری تعلیم کی اہمیت سے قطعاً غافل نہ تھے ۔خاص طور پر براعظم افریقہ میں ، جہاں جہالت کا دور دورہ تھااور غربت وافلاس کے بادل ہر وقت ان کے سروں پر منڈلا رہے تھے ۔ چنانچہ انہوں نے سب سے پہلے وہاں تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کا جال بچھا یا۔ (جن کی تفصیل آئندہ سطور میں ذکر ہوگی) یہاں ہم صرف مسیو شاٹلین کے قول پر اکتفا کریں گے۔ وہ لکھتا ہے: ’’فرانس کو چاہئے کہ مشرقِ اسلامی میں سب سے پہلے اس کی سرگرمیاں مسلمانوں کی ذہن سازی Brain washing پر مرتکز ہوں ۔‘‘(الغارۃ علی العالم الاسلامی، أ۔ ل۔ شاتلیہ، ترجمہ محب الدین الخطیب ص ۱۵) وہ آگے چل کر لکھتا ہے : ’’ جس دن عربی زبان ختم ہوگئی جوکہ افریقی ممالک کی تجارتی زبان ہے، اس دن اسلام کی طرف سے کوئی خطرہ باقی نہیں رہے گا، کیونکہ عربی زبان کے خاتمہ سے اس کے تمام مدارس ویران ہوجائیں گے۔‘‘(مجلہہٰذہ سبیلي : عدد۲،ص۲۸۴) 3. بیماری :افریقہ میں پائی جانے والی غربت، ناخواندگی اور بیماری عیسائی مشنریوں کے لئے ایک سرسبزوشاداب چراگاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ عیسائی مشنری اسلامی ممالک خصوصاً افریقہ میں بیماریوں کے علاج کے ذریعے انسانی ہمدردی اور انسانیت نوازی کا دعویٰ کرکے اپنے گھناؤنے مقاصد اور ناپاک عزائم کو بروئے کار لانے کا سامان کرتے ہیں ۔ اس لئے آپ انہیں یہ کہتے ہوئے پائیں گے : ’’جہاں انسان ہوں گے، وہاں بیماریاں بھی ہوں گی او رجہاں بیماریاں ہوں گی، لامحالہ وہاں ڈاکٹر کی ضرورت بھی پڑے گی اور جہاں ڈاکٹر کی ضرورت ہوگی، وہاں مسلمانوں کو عیسائی بنانے |