ہستی ہے جن کی بات کو من و عن تسلیم کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے تو وہ فقط (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں )۔‘‘ (معارج القبول :۲/۶۲۵) ٭ دلیل نمبر۴:چوتھی دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود و نصاریٰ کی مخالفت کا حکم دیا ہے۔ وہ لوگ ایک ہاتھ مصافحہ کرتے ہیں لہٰذا ہمیں دو ہاتھوں سے مصافحہ کرنا ہوگا۔ جائزہ:بے شک حکیم الامت سرورِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود و نصاریٰ کی مخالفت کا حکم دیا ہے مگریہ ان کاموں میں ہے جن کا ہماری شریعت نے اعتبار نہیں کیا اور ان کو ردّ کردیا ہے مگر وہ احکام جو ان کے ہاں پائے جاتے ہیں اور ہماری شریعت نے بھی ان کو باقی رکھا ہے، ان میں مخالفت کرنے کا دعویٰ انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ یٰأَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلٰی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ (بقرۃ:۱۸۳) ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کردیئے گئے ہیں جس طرح پہلی اُمتوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘ نص قرآنی سے پتہ چل رہا ہے کہ ہم سے پہلی قومیں روزہ رکھا کرتی تھیں تو کیا ہم ان کی مخالفت میں روزہ ترک کردیں ؟ ہرگز نہیں ۔ ویسے بھی ہمارے اور ان کے سلام کے الفاظ مختلف ہی ہیں ۔ ٭ دلیل نمبر۵:دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کے متعلق پانچویں دلیل ان الفاظ کے ساتھ ذکر کی جاتی ہے: ’’دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا ادب اور ایک ہاتھ سے یہ عمل گستاخی اور بے ادبی کے زمرے میں آتا ہے۔‘‘ جائزہ:انتہائی قابل افسوس مقام ہے کہ اس تعریف ِگستاخی کی زد میں وہ نفوسِ زکیہ بھی آجاتے ہیں جن کی محبت وعقیدت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اس پر زیادہ سے زیادہ یہی عرض کرسکتا ہوں ،بقولِ شاعر ؎ حیران ہوں کہ رؤوں دل کو یا پیٹوں جگر کو میں مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں ! علما،صلحا اور بزرگوں کا ادب ہر مسلمان پر لازمی ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم ادب کے نام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کو ردّ کر دیں ۔ ٭ دلیل نمبر۶: بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ کیا ہمارے علما اور بزرگ اس حقیقت کا |