’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بطحا میں تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا۔ ظہر اور عصر کی نماز دو دو رکعت ادا کی(نمازیں جمع کیں )۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سترہ بھی گاڑا ہوا تھا۔ نماز کے بعد لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کو پکڑ کر اپنے چہرے پر لگاتے تھے۔ (راوی کہتے ہیں کہ) میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دست ِمبارک پکڑ کر اپنے چہرے پر رکھا تو وہ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور کستوری سے زیادہ خوشبودار تھا۔‘‘(صحیح بخاری:۳۵۵۳) جائزہ :یہ حدیث بھی چند وجوہات کی بنا پر دو ہاتھوں سے مصافحہ کیلئے قابل احتجاج نہیں ہے (۱)اس حدیث ِمبارکہ کا مصافحہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس حدیث میں توفقط اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکت سے تبرک حاصل کرنا مشروع ہے۔ جس طرح کہ دیگر کئی احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے ۔ (۲)بالفرض اس حدیث کو مصافحہ کے لئے دلیل تسلیم کربھی لیا جائے تو اس حدیث کے اندر تو راویٔ حدیث نے ایک ہاتھ سے مصافحہ کا بھی ذکر کیا ہے، پھر یہ فقط دو ہاتھ سے مصافحہ کی دلیل کیونکر بن سکتی ہے۔ چنانچہ اس حدیث کی رو سے بھی ایک ہاتھ سے مصافحہ کو غلط کہنا صحیح نہیں ہوگا۔ (۳)اگر اس حدیث کو مصافحہ کے لیے دلیل تسلیم کیاجائے تو اس میں اس بات کا ذکر بھی موجود ہے کہ لوگ دست مبارک کو اپنے چہرے پر لگاتے تھے تو کیا مصافحہ کے بعد اپنے مسلمان بھائی کے ہاتھ چہرے پر لگائے جائیں ؟ ٭ دلیل نمبر۳ :تیسری دلیل یہ ہے کہ حضرت حماد رحمۃ اللہ علیہ نے امام عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ سے مکہ کے اندر دو ہاتھوں سے مصافحہ کیا۔ جائزہ: یہ دلیل بھی شرعی نقطہ نگاہ سے پائیدار نہیں ہے۔ ہمارا دین کتاب و سنت کی شکل میں الحمدللہ موجود ہے۔ ائمہ دین، علماء کرام، مجتہدین عظام کا مقام و مرتبہ روزِ روشن کی طرح واضح ہے مگر احادیث ِنبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل کسی کا عمل کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ یہی مسلمان کا ایمان ہونا چاہئے۔ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اورامام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کی بات کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے: ’’ہر ایک انسان کی بات چھوڑی بھی جاسکتی ہے اور لی بھی جاسکتی ہے۔ اگر دنیا میں کوئی ایسی |