میں شہید کی نمازِ جنازہ اور سرکاری مناصب کے حصول کی کوششوں پر بھی اظہارِ خیال کیا۔ (۱۴) شام کے سیشن کا آغاز ہوا تو محترم حافظ عبدالرحمن مدنی نے ’جہاد اور دہشت گردی میں فرق‘ کے موضوع پر اظہا رخیا ل کیا۔انہوں نے واضح کیا کہ اسلام لوگوں کو بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ مغرب کے پیش کردہ بنیادی حقوق جان، مال، آبرو سے بڑھ کر نسل، عقل اور دین کے انسانی حقوق کے تحفظ کا بھی اسلام ضامن ہے۔ انہوں نے فرمایاکہ فروغِ اسلام کا ذریعہ تو دعوت وتعلیم ہی ہے جبکہ اسلامی معاشرے کی تشکیل و تحفظ کا ذریعہ جہاد وقتال ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی جہاد کے مثبت پہلو واضح کرنے کی ضرورت ہے جو فروغ اور غلبۂ اسلام کی تمام مساعی پر محیط ہے۔ جبکہ قتال فتنہ وظلم کے خاتمہ کیلئے کیا جاتا ہے لہٰذا اسلام میں جہاد فی نفسہٖ پسندیدہ فعل ہے جبکہ قتال اسلام میں نفاذِ حدود کی طرح حسن لغیرہٖ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کو فلسفہ واشتراکیت یا امریکہ کے نیو ورلڈ آرڈر سے تشبیہ دے کر اس کے نفاذ کا جواز بتانا معذرت خواہانہ انداز ہے جبکہ اللہ تعالیٰ مسلمہ طور پر اس کائنات کا خالق ہے اس کی رہنمائی اور انسانی ذہن کے تراشے ہوئے فلسفے اور نظام یکساں نہیں ہوسکتے۔ تمام نعمتیں اللہ تعالیٰ کی استعمال کر کے اس کا شکر تو بڑی بات ہے اس کی شریعت (رہنمائی) پر اکتفا نہ کرنا بہت بڑاظلم ہے، لہٰذا کم از کم اجتماعی طور پر وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّـهِ پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے البتہ انفرادی طور پر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں لَا إِکْرَاہَ فِی الدِّين وغیرہ تعلیمات سے جبر کا خاتمہ کر کے انسانی مساوات اور آزادی فکر کے تحفظ کی ضمانت مہیا کی ہے چنانچہ اللہ کی آخری شریعت اور مکمل دین ہونے کے ناطے محمدی شریعت دیگر الہامی شریعتوں پر فوقیت رکھتی ہے اور اس مقصد کے لئے دنیا سے انسانی جبر وظلم کا خاتمہ کرکے ایک انسان کو آزادی سے اللہ کی بندگی قبول کرنے کا ماحول مہیا کرنا اسلام کا مقصد ومنشا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سپہ سالار سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے نمائندہ ربعی ابن عامر کے بقول، لوگوں کو انسانوں کی بندگی سے نکال کر ایک اللہ کی بندگی میں اجتماعی طور دینا اسلام کا اقدامی ’فلسفہ قتال‘ ہے۔جس کے بعد قبولِ اسلام کے لئے دعوت و تعلیم راہ ہموار کرتی ہیں ۔ اپنے خطاب میں انہوں نے دہشت گردی اور جہاد میں فرق کرتے ہوئے کہا کہ اسلام حرابہ کی سخت ترین سزا مقرر کرکے دہشت گردی کی پرزور مذمت کرتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسلام میں قتال کے لئے بڑی کڑی شرائط اور آداب وضوابط ہیں جن کو ملحوظ نہ رکھنے کی بنا پر بسا اوقات دہشت گردی کا مغالطہ ہو سکتا ہے۔ آخر میں انہوں نے عسکری تنظیموں کی سرکاری ایجنٹ ہونے کے حوالے سے بعض بے اعتدالیوں کا تذکرہ کیا۔ چوتھا دن (۱۷/ جولائی بروزبدھ) (۱۵) صبح کے سیشن کا آغاز جناب قاری محمد ابراہیم میرمحمدی نے تلاوتِ قرآن کریم سے کیا۔ اس کے بعد پروفیسر عبدالجبار شاکر (ڈائریکٹر پنجاب پبلک لائبریریز) نے ’عصر حاضر میں مسلمانوں کا اضطراب، اَسباب اور حل‘ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف سب سے زیادہ سازشیں بنانے والے یہود ہیں اور ان کی ذہنیت سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان کے لٹریچر کا مطالعہ کریں ۔ یہود کا منصوبہ ہے کہ وہ مدینہ نبویہ کو بھی اپنے زیر تسلط لے لائیں ۔ بعد ازاں انہوں نے عیسائیوں کی اسلام کے خلاف سازشوں کا نقشہ کھینچا۔ اور ان کوششوں کے تناظر میں مسلمانوں کو مناسب حکمت ِعملی وضع کرنے اور اس پر مخلصانہ عمل کرنے پر زور دیا۔ (۱۶) ’انسانی حقوق‘ کے موضوع پر جناب محمد عطاء اللہ صدیقی نے اظہارِ خیال کیا اور اسلام کی حقانیت کو واضح |