استدراک شیخ الحدیث مولانا عبدالمنان نور پوری جامعہ محمدیہ، گوجرانوالہ کیا فرعونِ موسیٰ کی لاش رہتی دنیا تک عبرت ہے ؟ ’محرم‘ کی تعریف کن الفاظ سے کی جائے ؟ جناب حافظ حسن مدنی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ’محدث‘باقاعدہ ارسال کرنے پر جناب کا شکرگزار ہوں ۔ د ل کی گہرائیوں سے دُعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مجلہ کو دن دوگنی، رات چوگنی ترقی عطا فرمائے، نیز آپ کے دیگر دینی کاموں اور اداروں میں برکت ڈالے۔ آمین یا ربّ العٰلمین! محدث جلد ۳۴ ، شمارہ ۴ (اپریل ۲۰۰۲ء /صفر۱۴۲۳ھ) میرے سامنے ہے، دو چیزوں کی طرف توجہ مبذول کرانا مقصود ہے : (۱) مضمون ’کثیر منزلہ قبرستان کی شرعی حیثیت‘ میں صفحہ نمبر ۲۷ پر لکھا ہے : ’’اس طرح شیشے اور لکڑی کے تابوت میں لاش کو محفوظ رکھنا بھی سنت اور عمل صحابہ کے خلاف ہے۔ البتہ فرعون اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ قرآن کی رو سے اس کی لاش رہتی دنیا کے لئے نمونہ عبرت ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً﴾ ’’آج ہم تیرے بدن کو نجات دیں گے تاکہ تو اپنے پیچھے والوں کے لئے نمونۂ عبرت بن جائے۔‘‘ مضمون کے اس اقتباس پر میری گذارشات حسب ِذیل ہیں : اولاً : فَاليوْمَ ننجيك …الایۃ میں جو کچھ بیان ہوا ، یہ موسیٰ علیہ السلام کی شریعت نہیں ۔ بالفرض ان کی شریعت ہو بھی تو ہماری شریعت میں ’’شیشے اور لکڑی وغیرہ کے تابوت میں لاش کو محفوظ رکھنے کی سنت کے خلاف ہونے کے‘‘دلائل سے منسوخ ہوچکی ہے لہٰذا یہ مستثنیٰ والی بات درست نہیں ۔ ثانیاً : اس آیت ِ کریمہ میں کوئی ایک بھی ایسا لفظ نہیں جس سے نکلتاہو’’اس کی لاش رہتی دنیا… الخ‘‘ بلکہ فَاليوْمَ کا لفظ ’قیامت تک‘ کی نفی کرتا ہے۔ ثالثاً: مصر کے عجائب گھر میں جو لاش پڑی ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ فرعونِ مصر کی لاش ہے وہ دریا سے ملی ہے، اور ا س کی دریافت پر ابھی سو سال کا عرصہ پورا نہیں ہوا تو آج سے تقریباً سو سال قبل کون شخص تھا جس نے پہچانا کہ دریا سے ملنے والی یہ لاش اس فرعونِ مصر کی ہے جس کو |