غیر ملکی گرانٹ پر پابندی سینکڑوں این جی اوز جنہیں سرکاری افسران او ران کی بیگمات و دیگر مغرب زدہ خواتین چلا رہی ہیں جن کو یورپ و امریکہ کی یہودی تنظیمیں بھاری گرانٹ دیتی ہیں ۔ جن تنظیموں کے ظاہری روپ او رباطنی مقاصد میں زمین آسمان کا فرق ہے اور جنہیں ہمارے پسماندہ علاقوں اور ان کی خواتین سے ہمدردی نہیں بلکہ ان کے اپنے مقاصد اور اہداف ہیں اورجن این جی اوز کی آڑ میں ملک دشمنی و جاسوسی کے کتنے ہی پروجیکٹ پروان چڑھ رہے ہیں ، ان این جی اوز کی گرانٹ لینے پر کوئی پابندی نہیں ۔ وہ کروڑوں ڈالرز کی غیر ملکی گرانٹ لیتی ہیں ۔ ان پر حسابات آڈٹ کرانے کی بھی کوئی پابندی نہیں جبکہ دینی مدارس کی غیر ملکی گرانٹ پر بلا جواز اور بلا تحقیق پابندی عائد کی جارہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان دینی مدارس کو یورپ و امریکہ کی کوئی این جی اوز تو گرانٹ نہیں دے سکتی۔ اگر چند مدارس کی مدد ہورہی ہے تو وہ یا تو بیرونِ ملک مقیم پاکستانی کررہے ہیں یا اسلامی ممالک کے سرکاری و نیم سرکاری ادارے، مثلاً خلیجی ممالک کی وزارتِ اوقاف ومذہبی اُمور، رابطہ عالم اسلامی،مکہ مکرمہ وغیرہ۔ ایسے ادارے دنیا بھر میں غریب مسلمان ممالک میں تعلیمی اداروں اور مساجد کی مدد کررہے ہیں ۔ یہ خفیہ نہیں ، اعلانیہ امداد ہے جو حکومت کے مکمل طور پر علم میں ہے۔ بینکوں کے ذریعے رقوم منتقل ہوتی ہیں ۔ سٹیٹ بینک کے علم میں رہتی ہیں ۔ اس تعاون کے مقاصد خالص علمی و اسلامی ہیں ۔ آخر حکومت ِپاکستان کس جواز کے تحت اس گرانٹ پر پابندی عائد کرسکتی ہے؟ ہاں اگر کوئی گرانٹ خفیہ ہے تو اسے بے نقاب کیا جائے۔ کوئی گرانٹ تخریب کاری کے مقاصد کے لئے دی جارہی ہو تو اس پر کڑی گرفت کی جائے۔ دینے اور لینے والوں کے نام سامنے لائے جائیں ، لیکن محض اغیار کے دباؤ کے تحت، یہودی عناصر کے مقاصد کی تکمیل کے لئے اپنے ہی مسلمان ممالک او راداروں کے ذریعے اپنے ہی ملک میں دینی اداروں اور غریب طلبہ کی کفالت کے نظام اور زرِمبادلہ کے حصول کے سلسلہ کو بند کرنا ہر لحاظ سے بلا جواز، غیر قانونی، غیر اخلاقی، غیر منصفانہ اور غیر آئینی ہے۔ نصاب میں ترمیم و اضافہ اکثر دینی مدارس کے نصاب میں انگریزی، حساب، سائنس و کمپیوٹر کے مضامین پہلے ہی شامل ہیں ۔ دینی و دنیاوی تعلیم کی ہم آہنگی کا پہلا اور اہم قدم تو یہ ہے کہ حکومت سکولوں اور کالجوں میں دینی تعلیم کو لازمی قرار دے۔ ہر سطح پر قرآن و سنت کی تعلیم دی جائے۔ جب حکومت یہ کام کرے گی تو پھر اسے دینی مدارس میں بھی دنیاوی علوم کو شامل کرانے کا حق پہنچے گا۔ |