تمام مدارس کو لازمی رجسٹریشن کا پابند بنانا غیرقانونی بھی ہے اور غیر اخلاقی بھی۔ نیز یہ آئین پاکستان میں دیے گئے انجمن سازی کے بنیادی حق کے منافی بھی ہے۔ حکومتی مراعات کا لالچ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے تحت رجسٹر ہونے والے اداروں کو حکومت گرانٹ اور مراعات دے گی۔ حکومت یا نام نہاد سیکولر عناصر کوسرے سے خبر ہی نہیں کہ یہ مدارس کتنی بڑی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ دینی مدارس ملک کی سب سے بڑی این جی او ہیں کہ جو صدیوں سے لاکھوں طلبہ کو نہ صرف زیورِ علم سے مزین کررہے ہیں بلکہ ان کو قیام و طعام کی سہولتیں بھی فراہم کررہے ہیں ۔ یہ کروڑوں کا نہیں ، اربوں کا معاملہ ہے جو سراسر اعتماد، دینی جذبے اور احساسِ جوابدہی کی بنیادوں پر چل رہا ہے۔ اگر دینی مدارس میں زیرتعلیم طلبہ کی تعداد پانچ لاکھ شمار کی جائے اور ان کے قیام و طعام اور تدریس پر ماہانہ ایک ہزار روپے (بہت ہی کم) اور سالانہ بارہ ہزار روپے شمار کئے جائیں تو یہ چھ ارب روپے بنتے ہیں ۔ تعمیرات، اساتذہ کی تنخواہیں ، یوٹیلٹی بلز وغیرہ شامل کئے جائیں تو یہ رقم بارہ ارب روپے سالانہ بنتی ہے۔ ہماری وہ حکومت جو پورے ملک میں تعلیم کی مد پر صرف ۷ ارب ۶۷کروڑ روپے خرچ کررہی ہے، وہ ان دینی مدارس کو کتنی گرانٹ جاری کرسکتی ہے او رکیا مراعات دے سکتی ہے؟ یہ اہل خیر ہی ہیں کہ جو ان مدارس کی کفالت کررہے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ اہل خیر، اہل مدارس سے مطمئن ہیں تب ہی ان کے سپرد اپنی امانتیں کردیتے ہیں !! حسابات آڈٹ کرانے کی پابندی حسابات رکھنے اور انہیں آڈٹ کرانے کی پابندی بالکل ایک درست اور اخلاقی پابندی ہے۔ جس سے کوئی ادارہ بھی انکار نہیں کرے گا بلکہ بیشتر ادارے پہلے ہی اپنے حسابات آڈٹ کراتے ہیں ، تاہم خدشہ یہ ہے کہ حکومتی ادارے معاونین کی فہرستیں بھی طلب کریں گے اور اب معاونین پر بھی منفی دباؤ ڈالیں گے اور یہ کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ حکومتی اداروں کی مداخلت کی و جہ سے معاونین دینی مدارس کی معاونت سے ہاتھ کھینچ لیں گے اور اس طرح صدیوں سے چلنے والا یہ نظام متاثر ہوگا جبکہ غیر ملکی استعمار بھی تمام تر کوشش کے باوجود مداخلت کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا تھا۔ |