آثارِ علمیہ مولانا عبد الغفار حسن رحمانی مرتب: حافظ حسن مدنی مولانا عبید اللہ مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر علما سے مراسلت شیخ الحدیث مولاناعبید اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی جنوری۹۴ء) ماضی قریب کی ایک انتہائی سربرآوردہ علمی شخصیت تھے۔علم وعمل میں اسلاف کے جانشین او ربر صغیر پاک وہند کی جماعت اہلحدیث کی علمی آبرواور ان کے لیے سرمایۂ افتخار ۔ ان کے مقالات علم وتحقیق کا بہترین نمونہ ہوتے تھے جو اخبارات ورسائل کی فائلوں میں بکھرے ہوئے ہیں ۔ضرورت ہے کہ ان کو مرتب اور یکجا کر کے شائع کیا جائے تا کہ ایک تو مرتب ہوکر محفوظ ہوجائیں اور دوسرے عوام وخواص اُن سے استفادہ کر سکیں ۔ حضرت شیخ الحدیث مرحوم کی تدریسی ،علمی ا ور افتاء وتحقیق کی گوناگوں خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے ۔ لیکن ان سب میں ان کی عظیم ترین اور نمایاں خدمت ’مشکوٰۃ المصابیح ‘ کی مفصل عربی شرح مرعاۃالمفاتیح ہے ، جس کی تکمیل اگر چہ وہ نہیں فرما سکے، تا ہم جتنا حصہ وہ لکھ گئے ہیں ، وہ ان کی علمی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ مرحوم چونکہ اپنی علمی حیثیت کی وجہ سے عوام وخواص کا مرجع تھے ، اس لیے اہل علم وفضل کے ساتھ ان کی خط و کتابت کا بھی ایک وسیع سلسلہ قائم تھا۔ ماہنامہ محدث، لاہور کے حوالہ سے بھی حضرت شیخ الحدیث کی اپنے تحفۃ الاحوذی کے معاون ساتھی جامعہ لاہور الاسلامیہ ( رحمانیہ) کے سابق شیخ الحدیث مولانا محمد کنگن پوری رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ مراسلت رہتی۔ حضرت مرحوم کے یہ مکاتیب وعظ ونصیحت کے علاوہ علوم ومعارف کا گنجینہ ہوتے تھے۔ بنابریں ان کے مکتوبات اس لائق ہیں کہ انہیں جمع اور شائع کیا جائے ۔ مولانا عبد الغفار حسن حفظہ اللہ تعالیٰ نے جماعت اہل حدیث کی عظیم الشان درسگاہ دار الحدیث رحمانیہ، دہلی میں اپنے تعلیمی مراحل مکمل کئے۔ وہاں قیام کے دوران مولانا عبید اللہ مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا نذیر احمد بنارسی بھی مدرّس ( تھے۔ دورانِ تعلیم ان اساتذہ سے آپ کا ایسا تعلق استوار ہوا جو پھر ساری زندگی جاری رہا۔ قیام پاکستان کے بعد مولانا عبد الغفار حسن تو پاکستان آگئے اور یہ حضرات اساتذہ کرام ہندوستان میں ہی دین کی خدمت میں مشغول رہے۔ اس عرصہ میں مولانا کا ان سے استفادہ بصورتِ خط وکتابت رہا۔ محدث میں اس سے قبل مولانا مبارکپوری کے مولانا عبد الغفار حسن کے نام دو مفصل خطوط جنوری اور فروری ۱۹۹۹ء میں شائع ہو چکے ہیں جو بالترتیب ۱۹۸۹ء اور ۶ جون ۱۹۹۰ء کو مولانا مبارکپوری نے تحریر کئے۔اب مولانا مبارکپوری کے ۱۰ کے |