موسیٰ علیہ السلام کی رسالت کے انکار کی پاداش میں موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں ۱۰/ محرم کو اللہ تعالیٰ نے غرق کیا تھا؟ ممکن ہے کہ ملنے والی لاشیں کسی اور کی ہوں ۔ رابعاً: قرآنِ مجید کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ نجات بنی اسرائیل کو ملی ہے، فرعون اور آلِ فرعون کو نجات نہیں ملی، نہ ان کے بدنوں کو اور نہ ان کی روحوں کو ﴿وَلَقَدْ نَجَّيْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُهِينِ … الخ﴾ (الدخان:۳۰) ’’اور بے شک ہم نے بنی اسرائیل کو رسوا کرنے والے عذاب سے نجات دی۔‘‘ ﴿وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ ﴿٤٥﴾ النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا…الخ﴾ ’’اور آلِ فرعون کو بدتر عذاب نے گھیر لیا۔ وہ آگ پرصبح شام پیش کئے جاتے ہیں ‘‘ (غافر:۴۶) حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ( وقولہ ﴿فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً﴾ قال ابن عباس وغيره من السلف: إن بعض بنی إسرائيل شکوا فی موت فرعون، فأمراللَّه تعالیٰ البحر أن يلقيه بجسدہ سويا بلا روح وعليه درعه المعروفة علی نجوۃ من الأرض وھو المکان المرتفع ليتحققوا موته وهلاكه، ولهذا قال تعالیٰ ﴿َ الْيَوْمَ نُنَجِّيكَ ﴾ أی نرفعک علی نشر من الأرض ﴿بِبَدَنِکَ﴾ قال مجاھد: بجسدک، الخ‘‘رہا اللہ تعالیٰ کا قول﴿لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ﴾ اس سے فرعون کی لاش کا رہتی دنیا تک محفوظ رہنا نہیں نکلتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ ﴿٦٥﴾ فَجَعَلْنَاهَا نَكَالًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا …الخ﴾تو اس سے کوئی یہ استدلال کرے کہ ’بندر بنے ہوئے اسرائیلی، رہتی دنیا تک محفوظ رہیں گے او ربطورِ دلیل وہ وَمَا خَلْفَهَا کو پیش کرے تو اس کی یہ بات درست نہیں ہوگی۔ چنانچہ نمونۂ عبرت بننے/ بنانے کے لئے فرعون کی لاش یا بندر اسرائیلیوں کے بدنوں کامحفوظ رہنا وہ بھی رہتی دنیا تک، کوئی ضروری نہیں ۔ اسی طرح اس کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ قومِ عاد، قومِ ثمود، قومِ لوط اور قومِ شعیب نمونۂ عبرت ہیں جبکہ ان کی لاشوں اوران کے بدنوں کا تابوتوں میں یا ویسے ہی محفوظ ہونے کا کوئی بھی قائل نہیں ۔ |