(۲) محرم کی تعریف کن الفا ظ میں کی جائے؟ اسی شمارہ میں مضمون ’’میں پردہ کیوں کروں ؟‘‘ میں صفحہ نمبر ۵۰ پر لکھا ہے: ’’محرم میں ایسے تمام رشتہ دار شامل ہیں جن سے کسی عورت کا نکاح دائمی یا عارضی طور پر حرام ہو‘‘ اس تعریف کے مطابق عورت کا دیور، جیٹھ اور بہنوئی وغیرہ ’محرم‘ بنتے ہیں کیونکہ عارضی طور پر ان سے بھی نکاح حرام ہے … جبکہ اسی مضمون کے صفحہ نمبر ۵۱ پر لکھا ہے: ’’تمام نامحرم رشتہ دار (دیور، جیٹھ، بہنوئی… الخ)‘‘… تو یہاں ان کونامحرم قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح عورت کا اس کے غلام (مملوک) کے ساتھ بھی نکاح نہیں ہوسکتا جبکہ مندرجہ بالا تعریف کے مطابق غلام بھی مالکہ عورت کا محرم بن رہا ہے اور حدیث میں ہے: من ملک ذا رحم محرم منہ فقد عتق علیہ(جو کسی محرم رشتہ دار کا مالک بن جائے تو چاہئے کہ اسے آزاد کردے) اوراگر یہ غلام مالکہ عورت کے محرموں سے نہ ہو تو آزاد نہیں ہوتا۔ پتہ چلا کہ محض غلام ہونا ہی محرم بننا نہیں ۔ مزید برآں کسی مسلم عورت کی رشتہ دار عورت غیر مسلم ہے مثلاً ا س کے چچا کی بیٹی یا اس کے ماموں کی بیٹی۔ اب اس کے ساتھ اس کا نکاح حرام ہے کیونکہ عورت کا عورت کے ساتھ نکاح نہیں ہوتا جبکہ یہ دونوں آپس میں محرم نہیں اور مسلم عورت پر ایسی عورت سے پردہ کرنا بھی فرض ہے تو پتہ چلا کہ قاعدہ ’’عورت کا جس سے کسی وقت بھی نکاح نہ ہوسکے، وہ اس سے پردہ نہ کرے‘‘ درست نہیں ( کیونکہ مسلم عورت کا غیر مسلم عورت کے ساتھ نکاح کسی وقت بھی نہیں ہوسکتا جبکہ اس سے پردہ کرنا فرض ہے۔ پھر تعریف میں ’’جن سے کسی عورت کا نکاح… الخ‘‘ میں یہ ’کسی‘ کا لفظ بھی عجیب ہے۔ اس کا حذف ہی مناسب ہے۔ مكرم و محترم جناب حافظ عبد الرحمن مدنی ، حافظ ثناء اللہ مدنی ، قاری محمد ابراہیم میر محمدی اور دیگر تمام احباب و اخوان حفظہم اللہ تبارک وتعالیٰ کی خدمت میں تحیہ وسلام پیش فرما دیں ۔ والسلام علیکم ! |