Maktaba Wahhabi

66 - 70
کہا کہ مسلمانوں میں فقہی اختلافات کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بڑے فقہا نے قرآن و حدیث کے اطلاق کو اپنی عقل وتجربہ کے مطابق استعمال کیا جو اپنے دور میں تو واقعی بڑا اہم تھا لیکن آئندہ ادوار کیلئے بھی انہیں اتھارٹی قرار دینا مشکل ہے کیونکہ نبی معصوم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر شخص کی سمجھ بوجھ کا معیار مختلف ہے۔ اس کے علاوہ ابتدائی دورِ تدوین میں تمام احادیث کا اُن تک نہ پہنچنا بھی اس کا ایک بڑا سبب ہے۔انہوں نے اختلافِ فقہا کی صورت میں کتاب وسنت سے قریب تر رائے کو اختیارکرنے پرزور دیا۔ اسکے بعد محترم حافظ عبدالرحمن مدنی نے ’اجتہاد‘ کے موضوع پر چندمنٹ اِظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ اجتہاد کی تین تعریفیں ہیں : (۱) ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ (۲) متجددین (۳) جمہور فقہاء کی تعریف۔ پھر جمہور فقہاء کی تعریف کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ فہم خبر وفتویٰ اور اجتہاد واستنباط میں فرق ہے، جبکہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے تقلید جامد کے خطرہ کے پیش نظر اجتہاد میں اطلاق کے پہلو پر زور دیتے ہوئے فہم اور استنباط کی تفریق ملحوظ نہیں رکھی۔ جس سے افراط وتفریط کے کئی رویے جنم لیتے ہیں ۔انہوں نے روایت ودرایت اور فقہ کے ضوابط کو مختلف قرار دیتے ہوئے وضاحت کی کہ محدثین کی تصحیح وتضعیف ’حدس وفراست‘ کی قبیل سے ہے جس کو تسلیم کرنا تقلید فقہی کے زمرہ میں نہیں آتا۔ (۱۱) مولانا رمضان سلفی نائب شیخ الحدیث جامعہ لاہور الاسلامیہ نے ’حجیت ِحدیث‘ کے موضوع پر نہایت علمی گفتگو کی۔ آپ نے روایت اور درایت کی اصطلاحاتِ حدیث سے وضاحت کی اور دلائل سے ثابت کیا کہ حدیث و سنت کا تمام ذخیرہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِمبارک ہی موجود تھا جبکہ عہدِصحابہ میں اس کی ترویج ہوئی اور اس علم کی تدوین کا کمال عروج امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں ہوا۔ آپ نے یہ بتایا کہ اجتہاد کے اصولوں سے خبر واحد قرآنِ کریم کی تخصیص کرسکتی ہے۔ انہوں نے اس موقف پربھی سیر حاصل بحث کی کہ قرآن قطعی ہے اور حدیث ظنی؟ آپ نے فرمایا کہ حدیث قرآن کی تفسیر و تشریح کرتی ہے ،اس لئے صرف قرآن سے اسلامی شریعت کو نہیں سمجھا جاسکتا۔ (۱۲) ’وحدتِ اَدیان اور رسالت‘ کے موضوع روشنی ڈالنے کے لئے جناب مولانا زاہد الراشدی مدیر اعلیٰ ماہنامہ ’الشریعہ‘ گوجرانوالہ سے تشریف لائے ۔ انہوں نے کہا کہ تحریف شدہ تورات میں بھی توحید کے موضوع پر اکثر عقائد وہی ہیں جن کی اسلام دعوت دیتا ہے، ہم اہل کتاب کو اللہ عزوجل کی وحدانیت پر جمع ہونے کی دعوت دیتے ہیں ۔وحدت ادیان کا اسلامی اور قابل قبول تصور یہ ہوسکتا کہ ہر الہامی دین اپنی اصل تعلیمات کی بنا پر اتحاد کرے اور یہ امر واضح ہے کہ قرآن کے علاوہ ان ادیان پر کوئی مستند شہادت نہیں کیونکہ قرآن کی خصوصیت ان ادیان کی نگرانی (مہیمن ہونا) بھی ہے۔ انہوں نے ﴿ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ ﴾ کو دعوتی حکمت عملی کی تدریج قرار دیا اور کہا کہ آخرکار ہمیں اسلام کے رسول اعظم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہی آنا پڑے گا جو الہامی شریعتوں کے سلسلہ کی آخری کڑی ہیں ۔ (۱۳) ’عصر حاضر کی بدعات اور انکا ردّ‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے ’جماعت الدعوۃ پاکستان‘ کے قائم مقام امیر مولانا حافظ عبدالسلام بھٹوی نے کہا کہ دین اسلام کی تکمیل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوچکی لہٰذا اب کسی کو یہ اِجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ دین کے نام پر کوئی نئی چیز دین وشریعت میں داخل کرے، اَقوامِ مغرب کی نقالی یا اپنے نفس کی پیروی کی بنا پر اگر کوئی اسلام میں نئی چیز کا اِضافہ کرتا ہے تو ایسا کوئی عمل بھی قابل قبول نہ ہوگا۔ انہوں نے پارلیمنٹ سے اسلام کی تعبیر نو کی کوشش کو زیادتی سے تعبیر کیا اور اس کااعادہ کیا کہ پارلیمنٹ کو رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قانون دینے کے الٰہی حق پر دست درازی کرنے والے کون ہوتے ہیں ؟؟ انہوں نے آخر
Flag Counter