یہ وہ چیلنجز ہیں جو ہمارے سامنے کھڑے ہیں ۔ ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ایک ایسی دینی قیادت تیار کی جائے جو عالمی صورتِ حال کے تناظر میں حالات کا گہرا جائزہ لے، ملحد لابی کے ہتھکنڈوں کو سمجھے، شر کو اس کی اصل سے پہچانے کیونکہ بقول حضرت عمر رضی اللہ عنہ شر کوختم کرنے کے لیے اس کی پہچان ضروری ہے ۔ اور پھر اس کے علاج کے لیے مناسب لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے لیے یہ مناسب ہوگا کہ ہمارے وہ سکالرز جو اس وقت سعودی عرب میں کام کر رہے ہیں مثلاً قاری محمد اَنور صاحب جو بیس سال سے سعودی عرب میں ہیں اور اب جامعہ الامام محمدبن سعود الاسلامیہ سے پی ایچ ڈی کررہے ہیں ، ان کو چاہیے کہ وہ واپس آئیں اور عرب ممالک میں کام کرنے والے اپنے قابل ساتھیوں کو بھی لائیں اور پاکستان کے حالات کو سمجھ کر اسلام کی خالص اور سچی روشنی کو پھیلانے کا کام کریں ۔ مولانا مدنی نے فرمایا کہ اس تربیتی ورکشاپ کو منعقد کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ بیرونی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبا جو بین الاقوامی حالات سے زیادہ واقفیت رکھتے ہیں اور پاکستانی جامعات کے طلبا جو پاکستان کے حالات سے نسبتاً زیادہ واقف ہیں ، مل بیٹھ کر اپنے خیالات کا تبادلہ کر سکیں ۔ ہم نے اس نیک کام کی ابتدا کر دی ہے اور اُمید کرتے ہیں کہ اسلام سے لگاؤ رکھنے والے حضرات اس پروگرام کو آگے بڑھائیں گے۔ آج اسلامی قیادت کو چاہیے کہ وہ کھلی ڈسکشن کا اہتمام کرے اور بین الاقوامی حالات کو پیش نظر رکھے اور اسلام پر کفر کے لگائے ہوئے دھبوں کو دھو کر اسلام کی صحیح تصویر پیش کرے جس سے مملکت ِخداداد پاکستان میں اسلام کے غلبہ کا راستہ ہموار ہو گا اور پاکستان بقول قائد اعظم محمد علی جناح ایک دن ضرور اسلام کی آماجگاہ بن جائے گا۔ وما علينا إلا البلاغ 3۔ سعودی عرب کے سفیر چونکہ ان دنوں ملک میں نہیں تھے اس لئے ان کے قائم مقام عزت مآب جناب نبیل البہلول تقریب کے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے آئے۔ انہوں نے اس تربیتی پروگرام کے اِنعقاد پر خوشی کا اظہار کیا اور اس کے لئے ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ آج میڈیا کے ذریعے اسلام کا صحیح تصور مسخ کیا جا رہا ہے۔ اور دنیا کو یہ بھی باور کروایا جا رہا ہے کہ پاکستان کوئی نظریاتی ملک نہیں ہے کہ جس کی بنیاد کلمہ طیبہ ہو۔ ہمارا یہ پروگرام ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اسلام کے حقیقی تصور کو واضح کریں اور اسلامی روح جس کو بگاڑا جا رہا ہے، اس کی صحیح عکاسی پیش کریں ؛ نظریاتی طور پر بھی اورعملی طور پر بھی۔جس سے ہم کفر کے مقابلہ میں اچھی پیش رفت کر سکتے ہیں … آخر میں انہوں نے کہا کہ میں سعودی یونیورسٹیوں اور پاکستانی جامعات کے طلبا کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس ورکشاپ میں اس نہج پر شرکت کریں اور اس سے بھرپور فائدہ اٹھائیں کہ وہ دوسروں کے لیے ایک نمونہ اور آئیڈیل بن جائے۔ 4۔ اس کے بعد مجاہد ِناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم جناب محمّد اسماعیل قریشی نے قائم مقام سفیر کی خدمت میں سعودی حکومت کے لیے چند تجاویز پیش کیں … انہوں نے اپنے انگریزی خطاب میں کہا کہ اب ضروری ہو گیا ہے کہ مسلمان ممالک خانۂ کعبہ کو اپنا مرکزبنا کر سعودی حکومت کی قیادت میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں ۔اور آج مسلمانانِ اُمت کی نظریں خادم الحرمین الشریفین پر لگی ہوئی ہیں ۔سعودی حکومت کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کے اِتحاد میں کردار ادا کرے۔ آخر میں شیخ الحدیث جامعہ لاہور الاسلامیہ حافظ ثناء اللَّه مدنی کی رِقت آمیز دُعاسے یہ پروگرام اختتام پذیر ہو گیا۔ |