Maktaba Wahhabi

62 - 70
(۲) غزوۂ فکری: امریکہ جہاں اپنے نیو ورلڈ آرڈر کو دنیا پر مسلط کرنے کے لیے عسکری ذریعہ کو اِختیار کر رہا ہے، وہاں اس نے ایک اور جنگ بھی چھیڑ رکھی ہے؛ وہ ہے غزوۂ فکری۔سقوطِ ڈھاکہ کا دلدوز منظر ذہن میں لائیے جس کے نتیجہ میں بنگلہ دیش بنا، اس کے پیچھے در اصل یہی غزوۂ فکری کار فرما تھا۔ اور ہنٹگئن کا یہ کہنا کہ اسلام اورکفر کی کشمکش در اصل دو تہذیبوں کا تصادم ہے مغربی ہدف کے اعتبار سے درست ہے جبکہ پاکستان اس تہذیبی تصادم کی جولان گاہ بن چکا ہے ۔جو بظاہر تو ایک اسلامی ملک ہے لیکن در حقیقت یہاں مغرب اور امریکہ کی گماشتہ این جی اوز کی حکومت ہے جو مغربی تہذیب کے پنجے گاڑنے کے لیے کوشاں ہیں ۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ ان اسلام دشمن تنظیموں کو علی الاعلان کروڑوں ڈالر اِمداد بھیجی جاتی ہے جو ببانگ ِ دہل اِسلامی تہذیب کو ختم کرنے کے لیے استعمال کی جارہی ہے اس پر کوئی چیک بھی نہیں ہے۔ لیکن اِسلامی روایات کے محافظ دینی اِداروں کے لیے باہر سے کوئی ڈرافٹ تک نہیں بھیجا جا سکتا۔ حتیٰ کہ اسلامی ممالک کی طرف سے دینی مجلات کے زرِ سالانہ کے ڈرافٹ بھیجنے پر بھی پابندی عائد ہے ۔ انہوں نے فرمایا کہ بر صغیر میں استعمار نے دو ’میک‘ سے کام لیا ہے ایک غزوِ فکری کے میدان میں لارڈ میکالے سے یعنی یہاں آج تک ہمارے نصابِ تعلیم کی بنیاد ’لارڈ میکالے کے سامراجی نظام‘ پر ہے جس نے اسلامی تہذیب کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا ہے اور اسلام کا تصور اس حد تک مسخ کر دیا گیا ہے کہ آج ہمارے قانون اور حکمران جرأت و حیرانگی سے کہہ رہے ہیں کہ کیایہاں اِسلام کا نفاذ ممکن ہے؟ کیا یہاں غیر سودی اسلامی اقتصادیات نافذ کرنا ممکن ہے؟ اللہ تعالیٰ نے جو اسلام کو ہمارے لیے مکمل ضابطہ حیات Complete code of Islam قرار دیا ہے، کیا ہمارا یہ طرزِ عمل اللہ تعالیٰ پر عدمِ ا ِعتماد کا غماز نہیں ہے ؟ اور پھر ہماری سیاست خواہ اس میں دینی جماعتیں بھی شامل ہوں ، اس کی بنیاد ’میکیاولی‘ ہے اور اس سیاست کے پروردہ لوگ آج یہ کہہ رہے ہیں کہ پہلے معاشرہ کو اِسلامی بنایا جائے پھر اِ سلام کونافذ کیا جا سکتا ہے۔ ہمارا تصورِ سیاست اس قدر کیوں بگڑ گیا ہے اور ہمارے ذہن اس قدر کیوں مسموم ہو گئے ہیں ؟ صرف اسلئے کہ ہماری سیاست کفر کے نظامِ سیاست پر استوار ہے جس پر ہم گاہے بگاہے اسلام کی پیوندکاری کی ناکام کوشش کر رتے رہتے ہیں ۔ انہوں نے قاری محمد ابراہیم کی تلاوت کردہ آیات ﴿ أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّـهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ … الآيات ﴾ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ہماری سیاست اورتعلیم کی مثال کلمہ خبیثہ کی سی ہے جس کی جڑیں گہری نہیں جبکہ اسلام کی جڑیں تو قرآن کے بقول﴿ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ﴾کی تصویر پیش کرتی ہیں ۔آج ہم جن مسائل سے دو چار ہیں اس کابنیادی سبب یہ ہے کہ ہم نے اپنے پاکیزہ الہامی دین کو کفر کے گندے اور خبیث نظام پر استوار کرنے کی راہ اپنالی ہے ۔ جب تک ہم اپنے نظام کی بنیاد کلمہ طیبہ (جس کی جڑیں انتہائی گہری ہیں اور اس کی چوٹی بلند ہے) پر استوار نہیں کریں گے، اس وقت تک ذلت ورسوائی سے چھٹکارا حاصل نہ ہو سکے گا۔ آج مغربی تہذیب سے مرعوب ہمارا اشرافی طبقہ میڈیا کے زور پر اِسلام کی اصلی صورت کو نہایت مسخ کر کے پیش کر رہا ہے۔ عدالتوں میں اسلام کی متفقہ اور مسلمہ اصلاحات کو خود ساختہ مفہوم پہنائے جا رہے ہیں ۔ حکمرانوں کے کاسہ لیس، استعمار کے ایجنٹوں کے ذریعے اسلامی تعلیمات کو جزیرۂ عرب اور عہد رِسالت وصحابہ میں محدود کرکے اسلام کی عالمگیر حیثیت کو ختم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے ۔
Flag Counter