ورکشاپ کے اغراض ومقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس ورکشاپ کا مقصد ’سعودی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم پاکستانی طلبا اور پاکستانی جامعات کے طلبا کی فکری تربیت‘ ہے تا کہ وہ دورِ حاضر میں اسلام اور عالم اسلام کو در پیش چیلنجز کا مقابلہ کر سکیں اور ایک ایسی دینی قیادت تیار کی جائے جو اُمت کی رہنمائی کا فریضہ بخوبی انجام دے سکیں ۔ انہوں نے بتایا کہ اس مقصد کیلئے ممتاز علما اور سکالرز کو جدید فکری موضوعات پر محاضرات کی دعوت دی گئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے خطبہ میں کہا کہ اس ورکشاپ کے اہداف میں سعودی یونیورسٹیوں اور پاکستانی جامعات میں زیر تعلیم طلبا کو باہم مل بیٹھنے کے مواقع فراہم کرنا ہے تا کہ وہ اپنے علمی تجربات اور وسیع ا فکار کا باہمی تبادلہ کر سکیں ۔ جس کا فائدہ یہ ہو گا کہ پاکستان کی اسلامی جامعات میں ہم آہنگی اور یگانگت کی فضا قائم ہو گی۔علاوہ ازیں دعوت کے میدان میں سر گرم مبلغین اور علما کے درمیان گہرے روابط کو فروغ دینے اور ان کے تجربات سے مستفید ہونے کے لیے شرکائِ دورہ کی ان سے ملاقاتوں کا اہتمام بھی کیا گیا۔ مہمانانِ گرامی کومخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسے پروگراموں کے فوائد و ثمرات کسی سے مخفی نہیں ہے، لہٰذا میں جامعات کے ذمہ داران سے اُمید کرتا ہوں کہ وہ بھی اس قسم کے پروگراموں کا انعقاد کروائیں گے،کیونکہ لا دینیت کی یلغار اور مغربی تہذیب کی منہ زور آندھی کو روکنے کے لیے طلبا کی جدید خطوط پر تربیت نہایت ضروی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ پروگرام ان شاء اللہ اس جیسے دیگر پروگراموں کے لیے نقطہ آغاز ثابت ہو گا…آخر میں انہوں نے حاضرین کی تقریب میں شرکت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ 2۔ اس کے بعد تربیتی ورکشاپ کے نگرانِ خصوصی حافظ عبد الرحمٰن مدنی مدیر جامعہ لاہور الاسلامیہ کو دعوتِ خطاب دی گئی ۔ انہوں نے موجودہ عالمی صورتحال میں پاکستان کی پوزیشن پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت عالم اسلام اور کفر کے درمیان عسکری اورتہذیبی تصادم برپا ہے۔آج اگر کفر کو کسی نظام سے خطرہ ہو سکتا ہے تو وہ اسلام کا ہمہ گیر نظامِ حیات ہے ۔ اس لیے وہ اس نظام کو عسکری اور فکری یلغار کے ذریعے تباہ کرنے کے لیے تمام ذرائع اختیار کر رہا ہے ۔ پاکستان دولحاظ سے دیگر اسلامی ممالک پر ممتاز حیثیت رکھتا ہے : (۱) اس کی بنیاد جس پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا ؛ وہ کلمہ طیبہ ہے۔ (۲) دوسرا امتیاز یہ ہے کہ وہ اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت ہے۔ اور یہ دونوں چیزیں سپر پاور امریکہ کو کانٹے کی طرح کھٹکتی ہیں اور اس کا اصل ہدف پاکستان کی بنیاد ’کلمہ طیبہ‘ کو جڑ سے اُکھیڑنا اور پاکستان کی ایٹمی حیثیت کو ختم کرنا ہے۔ اسی طرح عالم اسلام میں جہاں بھی اسلامی حکومت قائم ہو، یا قائم ہونے کا خدشہ ہو اس کے خلاف وہ ہر قسم کے ذرائع اختیار کر رہا ہے۔ (۱) عسکری تصادم کے ذریعے: اس کے لئے افغانستان کی تباہی ہمارے سامنے ہے کہ وہاں سے اسلامی حکومت کو ختم کرنے کے لیے کس طرح دہشت گردی کا ڈرامہ رچایا گیا اور پھر پاکستان کو یہ دھمکی دی گئی کہ اب دوستی یا دشمنی میں سے ایک رستہ اختیار کر لو اور افسوس کہ پاکستان نے ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود اپنے نظریہ سے اِنحراف کرتے ہوئے گھٹنے ٹیک دیئے اور پھر دنیا نے تماشا دیکھا کہ وہی امریکہ جو روس کے مد مقابل تو جہادِ افغانستان کا پشت پناہ تھا اور وہی پاکستان جو جہادِ افغانستان کا ہیرو تھا، آج پاکستان نے اسی امریکہ کو المسلم أخو المسلم لا يظلمه ولا يسلمه ولا يخذله کا فرمانِ نبوی بھلا کر اپنا کندھا پیش کر دیا تھااور پھر ظلم کی جو داستان رقم ہوئی، تاریخ اس کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ |