سلام کہہ رہے ہیں ۔ عبدالستار جن کے مکان میں آپ عرصہ تک رہے ہیں میرے پاس اکثر آتے رہتے ہیں ۔ آپ کو بہت یاد کرتے ہیں اور آپ سے ملنے کی بڑی تمنا رکھتے ہیں اور سچ پوچھئے تو ’قدرِنعمت بعد زوال‘ کے مطابق اب تو آپ کو سبھی یاد کرتے اور جدائی کا افسوس کرتے ہیں ۔ اگر آپ ہندوستان سے باہر نہ ہوتے تو پھر آپ کو دوبارہ حاصل کرنے کی ہرممکن سعی عمل میں لائی جاتی اور میں اپنے متعلق کیا کہوں ، مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رحمانیہ دہلی سے نکلنے کے بعد گویاگھر سے بے گھر ہو کر اِدھر اُدھر مارا مارا پھر رہاہوں ، اللہ رحم فرمائے۔ آمین! والسلام آئندہ خط و کتابت کے لئے یہ پتہ نوٹ کرلیجئے، مدرسہ کے پتہ کی ڈاک ضائع ہوجاتی ہے۔ (نذیر احمدرحمانی، دارالاقامہ، ۷۵/۱۶، پانڈے حویلی، بنارس شہر) (۱۰) بسم اللہ الرحمن الرحیم بنام : مولانا عبد الغفار حسن جامعہ تعلیماتِ اسلامیہ :۵/جناح کالونی،لائل پور ، مغربی پاکستان عزیز محترم المقام بارک اللّٰہ لکم وعافاکم السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ! ایک طویل عرصہ کے بعد آپ کی خیریت آپ کے قلم سے معلوم کرکے بے حد دِلی مسرت حاصل ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنا فضل و کرم شامل حال رکھے، آمین! آپ کی خواہش کے مطابق مولوی زبیر وغیرہ سے آپ کی تقریر کے نوٹس کے متعلق دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ’ترمذی‘ کی تقریر کا تو کوئی نوٹ نہیں ہے، ہاں پارہ الٓم کے متعلق ہے۔ مولوی عبدالقدوس کے پاس وہ کاپی محفوظ ملی ہے۔ ان شاء اللہ دو تین روز میں بذریعہ رجسٹری روانہ کروں گا۔ خدا کرے بحفاظت آپ کو وصول ہوجائے۔ وصولی کے بعد رسید سے ضرور مطلع کردیجئے گا تاکہ اطمینان ہوجائے۔ آپ کا خط بنام مولوی عبدالمتین صاحب کے ایک فقرہ سے اندازہ ہواکہ آپ کو ان کے بھائی حاجی عبدالحق صاحب (خزانچی صاحب) کے انتقال کر جانے کی اطلاع نہیں ہوئی، حالانکہ ان کو انتقال کئے ہوئے تقریباً چار سال کا عرصہ ہورہا ہے۔ ان تین بھائیوں میں اب صرف مولوی عبدالمتین صاحب رہ گئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کو عافیت و صحت کے ساتھ رکھے۔ حاجی محمد فاروق صاحب بھی ستمبر ۱۹۶۰ء میں (گذشتہ سال) انتقال کرگئے ہیں ۔ غفراللّٰه لہٗ جامعہ رحمانیہ میں نسبۃً توسیع ہوئی ہے۔ اب مزید توسیع کا پروگرام طے ہوگیا ہے ۔ان شاء اللہ جلد ہی اس پر عمل ہوگا۔ لوگ آپ کو بہت یاد کر رہے ہیں مگر افسوس اب ملاقات کی بھی توقع نظر نہیں آتی۔ ’’الرزیۃ کل الرزیۃ التی حالت بیننا و بین الأحبۃ‘‘ |