Maktaba Wahhabi

50 - 70
عزیز مکرم بارک اللّٰه لکم وزاد أمثالکم! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ! آپ کا ۱۶/ شوال کا کارڈ مجھے ۲۷ /شوال کومل گیا تھا۔ کیا عرض کروں کہ ایک طویل عرصہ کے بعد آپ کا خط پاکر کس قدر قلبی و روحی مسرت حاصل ہوئی تھی۔ آپ نے بعض باتیں ایسی لکھی تھیں جن کے متعلق مبارک پور میں مولانا عبیداللہ صاحب کو خط لکھ کر معلوم کرنا ضروری تھا۔ چنانچہ میں نے فوراً وہاں لکھا۔ مولانا کا جواب کچھ دیر میں آیا اور اس درمیان میں مجھ پر ملیریا کا حملہ ہوگیا۔تقریباً ایک ہفتہ تک اس میں مبتلا رہنے کے بعد باوجود نقاہت کے ،آج ۸ ذیقعدہ کو آپ کو جواب لکھ رہا ہوں ۔مولانا کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا مکتوب ان کے نام بھی پہنچ گیا ہے اور انہوں نے آپ کو جواب بھیج دیا ہے۔اس لئے محدث مبارکپوری علیہ الرحمہ کے معہود رسالہ کی بابت جوابدہی کی ذمہ داری سے تو میں سبکدوش ہوگیا۔ رہا مسئلہ حفید یتیم کے متعلق اپنی تحقیق کا سوال؟ تو سچ پوچھئے، ابھی اس خاص مسئلہ پر غور کرنے کا موقع کبھی نہیں ملا۔ سلف میں بھی شاید اس میں اختلاف نہیں ،اس لئے کبھی اس طرف توجہ نہیں ہوئی۔ نقاہت دور ہوجانے کے بعد ان شاء اللہ اس مسئلہ کی جستجو کروں گا۔ اسلم صاحب کی محجوب الارث بھی نہیں دیکھی۔ ادھر تو نہیں ملتی، اگر وہاں مل سکے تو ایک نسخہ بھیج دیجئے یا اگر ہندوستان میں اس کے ملنے کا کوئی پتہ آپ کے علم میں ہو تو مطلع کیجئے۔ قرآن نے تو میت کی ا ولاد کی موجودگی میں والدین کا حصہ صرف سدس بتایا ہے: ﴿وَلِأبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنْ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ﴾ پھریہ مسئلہ کہ میت کے باپ کی موجودگی میں اس کی اولاد محجوب اور باپ کل ترکہ کا مالک، کہاں سے نکل آیا؟ میں حیران ہوں … شاید یہ مسئلہ فقہا کے اس اُصول سے ماخوذ ہے کہ جب باپ بیٹے مل جل کر کام کرتے ہوں تو سارا مال باپ کا مکسوبہ شمار ہوگا ۔اس لئے جب کسی شخص نے اپنی وفات کے بعد اپنے باپ کو بھی چھوڑا تو اب اس کا سارا متروکہ مال اس کے باپ کا مکسوبہ ہونے کی بنا پر اس کے باپ ہی کی ملکیت قرار پاگئی، اب اس کی متروکہ کوئی ملکیت ہی نہیں جس پر اس کی اولاد قابض ہو ’’کذا فی القنیۃ الأب وابنہ یکتسبان فی صنعۃ واحدۃ ولم یکن لہما شییٔ فالکسب کلّہ لأب إن کان الابن فی عیالہ لکونہ مُعِینا لہٗ اَلا تریٰ لوغرس شجرۃ تکون للأب لیکن یہ اسی وقت ہوگا جب دونوں کاروبار میں شریک اور آمدوخرچ مخلوط غیر متمیّز ہو، ورنہ مذکورہ بالاآیت ِقرآنی کا پھر کوئی معنی نہیں ہوتا۔ بہرحال یہ مسئلہ مشہورہ کا جو منشا میں نے سمجھا ہے وہ بتایا ہے۔ رہا اس کا صحیح یا غلط ہونا تو ابھی مزید غور کے بعد شاید کچھ بتا سکوں ۔ عنبر صاحب، مولوی ابوالخیر صاحب ،قاری صاحب یہ سب جامعہ رحمانیہ میں موجود ہیں اور آپ کو
Flag Counter