ہے اور قاسم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا ہے۔اس لئے اس انقطاع کی وجہ سے یہ روایت لائق التفات نہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ۲۳ ھ میں انتقال فرمایا ہے اور قاسم نے ستر برس کی عمر میں ۱۰۶ ھ میں وفات پائی۔ اس حساب سے ان کی پیدائش حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد ۳۶ ھ میں ہوئی۔ 9.حنفیہ کا مذہب ہے کہ جب کسی مسئلہ میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول اور فتویٰ نہ ملے تو ضرورتِ شدیدہ کے وقت ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کے قول پر فتویٰ دینا جائز ہے: قال الشامی و بہ علم أن المضطر لہ العمل بذلک لنفسہ کما قلنا وأن المفتی لہ الافتاء بہ للمضطر فما مر من أنہ لیس لہ العمل بالضعیف ولہ الإفتاء بہ محمول علی غیر موضع الضرورۃ کما علمتہ من مجموع ما قررناہ (عقود إسم المفتی ص۵۰ للشامی) وقال الشامی أیضا تحت قول صاحب الدّر ’’إن الحکم والفتیا بالقول المرجوح جہل‘‘ مانصہ قلت لکن ہذا فی غیر موضع الضرورۃ الخ (ردّالمحتار للشامی: ۱/۶۹) امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ میں سے کسی شاگرد کے قول کے مطابق فتویٰ دینا اور اس کو اختیار کرنا امام صاحب کی تقلید کے خلاف نہیں ہے جیسا کہ آمدہ عبارت سے واضح ہے: قال الشامي لما کان قول أصحابہ غیر خارج عن مذہبہ صح حکم مقلدہ بہ ولذا قال فی الدرر من کتاب القضاء عند الکلام علی قضاء القاضی بخلاف مذہبہ إن المراد بہ خلاف أصل المذہب کالحنفي إذا حکم علی مذہب الشافعی وإما إذا حکم الحنفی کما ذہب إلیہ أبویوسف أومحمد أونحوہما من أصحاب الامام فلیس حکما بخلاف رأیہ انتہیٰ، فقد أفاد أن أقوال أصحاب الامام غیر خارجۃ عن مذہبہ فقد نقلوا عنہم أنہم ما قالوا قولا إلا مروي عن الامام کما أوضحت ذلک فی شرح منظومتی فی رسم المفتی (ردّ المحتار :۳/ ۵۱۲) اگر امام صاحب کے مذہب کے خلاف کوئی حدیث صحیح ثابت ہو جائے تو حدیث پر عمل کیا جائے گا اور وہی امام صاحب کا مذہب ہوجائے گا اور اس حدیث پر عمل کرنے سے امام صاحب کا یہ مقلد حنفی ہونے سے خارج نہیں ہوگا:نقل العلامۃ بیری فی أول شرح علی الإشباہ عن شرح الہدایۃ لإبن الشحنۃ نصہ إذا صحّ الحدیث وکان علی خلاف المذہب عمل بالحدیث ویکون ذلک مذہبہ ولا یخرج مقلدہ عن کونہ حنفیا بالعمل بہ فقد صحّ إنہ قال إذا صح الحدیث فہو مذہبی‘‘ (شامی : ۱/۶۳) 10. (ا) بیہقی کی المدخل کتب ِنادرہ میں سے ہے اس لئے عروہ بن زبیر کی اس روایت کی پوری |