” جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کیلئے پانی مانگا تو ہم نے کہا، اپنی لاٹھی کے ساتھ پتھر کو مار“ سادساً:اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو بنی اسرائیل (یہود و نصاریٰ) تھے،ان پریہ احسان جتلایاگیا ہے تو وہ ضرور اس آیت کا صحیح معنی سمجھے ہوں گے کیونکہ اگر وہ بھی نہیں سمجھ سکے تو ان پر احسان جتانا ہی فضول ہے۔ پس جب وہ صحیح سمجھے تو صحابہ رضی اللہ عنہم کی سمجھ کو کس شے نے غلطی میں ڈال دیا۔ سابعاً [1]: اسلئے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے بہت لوگ بنی اسرائیل بھی تھے تو بنی اسرائیل کا صحیح سمجھنا گویا صحابہ رضی اللہ عنہم کا صحیح سمجھنا ہے۔ اگر کہا جائے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے جو بنی اسرائیل تھے وہ تو صحیح سمجھے اور باقی غلط تو اس کی بابت عرض ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے اختلاف منقول ( نہیں ۔ (انتخاب: ’درایت ِتفسیری‘ از محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ ص ۱۶ تا ۲۱) |