تذکرة المشاہیر عبدالرشید عراقی شیخ الحدیث مولانا محمد اسمٰعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ جن لوگوں نے دنیا میں علمی، دینی، ملی اور سیاسی کارنامے انجام دیئے۔ ان کا نام تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کے لئے رقم ہوجاتا ہے اور ان کی یاد دلوں سے محو نہیں ہوتی اور جب ایسے لوگ دنیا سے رِحلت کرجاتے ہیں تو لوگ ان کی یاد میں آنسو بہاتے ہیں اوران کے کارناموں کو مجلسوں اور محفلوں میں بیان کرتے اور انہیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں ۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں مشہور ادیب اور صاحب ِقلم جناب نعیم صدیقی لکھتے ہیں : ”آدمی کا مرنا اس آسمان کے نیچے کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ، کوئی اچھنبے کی بات نہیں ۔ بچے مرتے ہیں ،جوان مرتے ہیں اور بوڑھے مرتے ہیں ۔ موت ہر شہر، قصبے اور گاؤں میں ہر آن زندگی کے ہاتھوں سے خراج وصول کرتی ملتی ہے ع گلشن ہستی میں مانند ِنسیم ارزاں ہے موت۔ لیکن کئی طرح کے جینے والے اور کئی قسموں کے مرنے والے ہیں ۔ زندگی کے ڈھنگ ہی گونا گوں ہیں اور موت کے انداز بھی رنگا رنگ ہیں ۔ ایک وہ لوگ ہوتے ہیں جو زمانے سے زندگی کی بھیک مانگتے ہیں اور بھیک مانگتے ختم ہوجاتے ہیں ۔ جو زمانے سے لڑتے لڑتے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر زندگی گزارتے ہیں اور جب مرتے ہیں تو اس شان سے مرتے ہیں کہ زندہ تر ہوجاتے ہیں ۔ پہلی قسم کے لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح مرتے ہیں اور تاریخ کا کارواں انہیں نظر انداز کرکے آگے بڑھ جاتا ہے۔ دوسری قسم کے لوگ اپنے نفس کو تلوار بناکر کسی اصول و مقصد کے لئے جہاد کرتے ہیں ۔ قوتوں کا سارا خزانہ نچوڑ دینے کے بعد سقراط کی طرح موت کے زہر کا پیالہ ہنستے مسکراتے پیتے ہیں اور سچائی کے محاذ پر دم توڑتے ہیں ۔ تاریخ ان کے کارناموں کی میراث دامن میں سمیٹتی ہے۔ ان کی عظیم روحوں کے مزار اپنے سینوں میں بناتی ہے اوران کی یادوں کے داغ دل میں لئے وقت کی وادیوں میں ارتقا کے مراحل طے کرتی ہے اور داغوں کے یہ دیے قیامت تک اُجالا کرتے ہیں ․“ پروفیسر رشید احمد صدیقی اپنی کتاب ’گنج ہائے گراں مایہ‘ میں لکھتے ہیں : ”موت سے کسی کو مفر نہیں لیکن جو لوگ ملی مقاصد کی تائید و حصول میں تادمِ آخر کام کرتے رہتے ہیں ، وہ کتنی ہی طویل عمر کیوں نہ پائیں ۔ ان کی وفات قبل از وقت اور تکلیف دہ محسوس ہوتی ہے۔“ مولانا محمد اسمٰعیل سلفی پر یہ جملہ مکمل طور پر صادق آتا ہے جنہوں نے ۲۰/فروری ۱۹۶۸ء کو گوجرانوالہ میں انتقال کیا۔شیخ الحدیث مولانا محمد اسمٰعیل سلفی اپنے دم میں ایک عہد تھے۔ وہ اپنی ذات سے خود ایک |