انجمن اور ادارہ تھے۔ مرحوم ملت ِبیضا کی شمع تھے۔ ان کے رخصت ہونے سے ایک روشن چراغ گل ہوا اور اندھیرا بڑھ گیا۔ ان کے دم قدم سے دنیاے علم و ادب میں جو رونق تھی، وہ سونی پڑگئی۔ علم و فضل:مولانا محمد اسمٰعیل سلفی علومِ اسلامیہ کا بحر ذخار تھے۔ تمام علوم یعنی تفسیر، حدیث، فقہ، اُصول فقہ، تاریخ و سیر، اسماء الرجال، ادب ونعت میں یکتا تھے۔ ٹھوس اور قیمتی مطالعہ ان کا سرمایہٴ علم تھا۔ تفسیرو حدیث اور فقہ و تاریخ پر ان کا مطالعہ گہرا تھا۔ عربی ادب کابڑا ستھرا اور عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ وہ ایک جید عالم دین، فقیہ، مصنف اور مدرّس و خطیب تھے۔ ذاتی خصوصیات:مولانا سلفی مرحوم قدرت کی طرف سے بڑے اچھے دل و دماغ لے کر پیدا ہوئے تھے۔ ذہن و ذکاوت کے ساتھ قوتِ حافظہ بھی قوی تھا۔ جو کتاب ایک دفعہ نظر سے گزر گئی، حافظہ میں محفوظ ہوجاتی تھی۔ مطالعہ کے بہت زیادہ شوقین تھے۔ مرحوم نے ٹھوس اور تحقیقی مطالعہ کا ذوق اپنے استاد مولانا سید عبدالغفور غزنوی رحمۃ اللہ علیہ سے پایا تھا۔ مولانا سلفی رحمۃ اللہ علیہ تحریر و تقریر کے میدان کے کامیاب شہسوار تھے۔ زبان و قلم میں بلاکی شگفتگی و دلآویزی تھی۔ آپ کی تقریروں میں علم و روحانیت، فکروبصیرت اور تحقیق و کاوش کے جوہروں کے ساتھ ساتھ ادب کی چاشنی اور اُسلوب کی دلآویزی چمکتی اور دمکتی نظر آتی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ مولانا سلفی مرحوم کوقدرت نے نثر نگاری کا جتنا صاف ستھرا ذوق دیا تھا، اس کی مثال ان کے دور کے علما میں کم ہی نظر آتی ہے۔ مولانا سلفی مرحوم ایک کامیاب مدرّس بھی تھے۔ بلا شبہ تاریخ میں ایسے بے لوث، تعمیر پسند اور دوسروں کو ہر قدم اور ہر موڑ پر سہارا دینے والے کم ہی لوگ نظر آتے ہیں ۔ نہ جانے ان کے کتنے شاگرد ہیں جو ان کی حوصلہ افزائی اور تعاون کی بدولت صاحب ِقلم، صاحب ِتصنیف اور علمی و ادبی دنیا میں شہرت وعظمت کے حامل ہوگئے۔ اخلاق و عادات مولانا سلفی مرحوم ایک کریم النفس اور شریف الطبع انسان تھے۔ اپنے پہلو میں ایک دردمند دل رکھتے تھے۔ دوستوں کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔ ان کی راحت و تکلیف کا خیال رکھتے۔ وہ بہت زیادہ خوددار بھی تھے۔عفاف اور استغنا کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوٹا۔ طبیعت میں قناعت تھی۔ جاہ وریاست کے طالب نہ تھے۔کریمانہ اخلاق اور ستودہ صفات کے حامل تھے۔ مولانا سلفی مرحوم اصلی معنوں میں انسانی اُخوت اور خدمت ِخلق کا بہترین مجسمہ اور نکھرا ہوا نمونہ تھے۔ ان کی عظمت کا سب سے جدا اور منفرد پہلو یہ تھا کہ ان سے گفتگو کرتے وقت متکلم کو اپنی بڑائی اور |