تہذیب وثقافت محمدعطاء اللہ صدیقی ’ویلنٹائن ڈے‘ پر شرمناک طرزِعمل پاکستان میں مغرب کی تہذیبی یلغار کے تناظر میں ایک فکر انگیز تحریر جنسی آوارگی، بیہودگی اور خرافات کو ذرائع ابلاغ کس طرح ایک ’مقدس تہوار‘ بنا دیتے ہیں ، اس کی واضح مثال ’ویلنٹائن ڈے‘ ہے۔ یہ بہت پرانی بات نہیں ہے کہ یورپ میں بھی ’ویلنٹائن ڈے‘ کو آوارہ مزاج نوجوانوں کا عالمی دن سمجھا جاتا تھا، مگر آج اسے’محبت کے متوالوں ‘ کے لئے ’یومِ تجدید ِمحبت‘ کے طور پر منایا جانے لگا ہے۔ اب بھی یورپ اور امریکہ میں ایک کثیر تعداد ’ویلنٹائن ڈے‘ منانے کو برا سمجھتی ہے، مگر ذرائع ابلاغ ان کے خیالات کو منظر عام پر نہیں آنے دیتے۔ مغربی ذرائع ابلاغ اخلاقی نصب العین کے مقابلے میں ہمیشہ بے راہ روی کو فروغ دینے میں زیادہ دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں ، شاید سطحی صارفیت کے تقاضے انہیں یہ پالیسی اپنانے پر مائل کرتے ہیں !! پاکستان میں دیکھتے ہی دیکھتے جس طرح ’ویلنٹائن ڈے‘ مٹھی بھر اوباشوں کے حلقہ سے نکل کر جدیدنوجوان نسل اور مغرب زدہ طبقات میں پذیرائی حاصل کرچکا ہے، اس کی توقع ایک اسلامی معاشرے میں نہیں کی جاسکتی۔ اس سال ’ویلنٹائن ڈے‘ کو جس وسیع پیمانے پر اخبارات اور ذرائع ابلاغ میں ’پروجیکشن‘ ملی اور جس والہانہ انداز میں مختلف اداروں نے اسے ایک ’ہردل عزیز تہوار‘ کا رنگ دینے کی کوشش کی، اس کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ اندر سے اس قدر کھوکھلا ہوگیا ہے کہ اعلیٰ ثقافتی قدروں کے تحفظ کے لئے وسیع پیمانے پرتحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ اس دفعہ پاکستان میں ویلنٹائن ڈے پر بے ہودگی کے سابقہ ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں ۔ ۱۵ /فروری کو مختلف اخبارات نے بے حد رومانوی انداز میں ویلنٹائن ڈے کی رپورٹنگ کی۔ روزنامہ ’جنگ ‘کے مطابق : ”صبح سے رات گئے پھولوں کا سفر جاری رہا۔ گل فروشوں کی چاندی رہی اور پھولوں کی دکانوں پررَش رہا۔ آج سرخ گلاب نہ ملنے پر دوسرے رنگوں کے گلاب خرید کر چاہے جانے والوں کو بھجوائے جاتے رہے۔ گل دستے ۱۰۰ روپے سے ۵۰۰ روپے تک بکتے رہے۔ رات کو بعض بڑے ہوٹلوں نے ’ویلنٹائن ڈنر‘ کا بھی اہتمام کیا۔“ یہ ایک نئی بدعت تھی جو اس سال دیکھنے میں آئی۔ نوائے وقت جیسے سنجیدہ اخبارنے بھی سرخی جمائی : ”ویلنٹائن ڈے‘ وفا کے عہد و پیمان، روٹھوں کو منایا گیا۔“ |