بچالے۔ لہٰذا وہ دیوتاؤں اور اولیاؤں کے اس درمیانی رابطہ کو خوش رکھنے اور ان کے سامنے سرعجزونیاز خم کرنے اور ان کی نذرو نیاز دینے پر عقیدةً مجبور ہوتے ہیں ۔ ان کے اسی عقیدہ کو قرآن نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: ﴿وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَايَضُرُّهُمْ وَلاَيَنْفَعُهُمْ وَيَقُوْلُوْنَ هٰوٴلاَءِ شُفَعَاوٴنَا عِنْدَ اللّٰهِ﴾ (یونس:۱۸) ”یہ مشرکین اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ توان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں اور نہ ہی کچھ سنوار سکتی ہیں ، پھر کہتے یہ ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں ۔“ انبیاء کی دعوت کی تعمیل کا آغاز نبی کی اپنی ذات سے ہوتا ہے اور اس دعوت کا مقصد چونکہ معاشرتی بگاڑ کی اصلاح ہوتا ہے لہٰذا اللہ کی حکمت اس با ت کی مقتضی ہوتی ہے کہ اس کی بعثت سے پہلے کی زندگی کو بھی معاشرتی خرابیوں سے محفوظ و مامون رکھا جائے۔ وہ اپنی بعثت سے پہلے کی زندگی میں بھی ایک راست گو اور راستباز انسان کی حیثیت سے لوگوں کے سامنے ہوتا ہے۔ تاکہ جب وہ اس معاشرہ کے مسلمہ معتقدات کے خلاف لوگوں کو دعوت دے تو اس پر کذب و افترا کا الزام عائد نہ کیا جاسکے۔ پھر جب اس نبی کی دعوت کا آغاز ہوتا ہے تو اس پر صرف وہ لوگ ایمان لاتے ہیں جو یا تو اس نبی کی راست گوئی اور راست بازی سے انتہائی متاثر ہوں ، پھر وہ لوگ ایمان لاتے ہیں جو معاشرہ کی ناانصافیوں کی چکی میں پس رہے ہوں اور تمدنی یا معاشرتی لحاظ سے کمزور یا حقیر سمجھے جاتے ہوں اور پورے معاشرہ کی مخالفت بھی اپنے سرمول لینے کو تیار ہوجائیں ۔اور یہ تو ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد کم ہی ہوسکتی ہے !! |