اس نے نوجوان عاشقوں کے لئے کیا تھا، اسے بعد ازاں یاد رکھا گیا اور آج اسی نسبت سے ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے۔“ یہ دونوں کہانیاں رومانوی افسانویت کے طبع زاد شاہکار معلوم ہوتی ہیں ۔ مندرجہ بالا حوالوں سے قطع نظر ’بریٹانیکا‘ میں ویلنٹائن ڈے کا پس منظر مختلف انداز میں ملتا ہے: ”سینٹ ویلنٹائن ڈے کو آج کل جس طرح "Lovers Festival" کے طور پر منایا جاتا ہے یا ویلنٹائن کارڈز بھیجنے کی جو نئی روایت چل نکلی ہے، اس کا سینٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ اس کا تعلق یا تو رومیوں کے دیوتا لوپرکالیاکے حوالہ سے ۱۴/فروری کو منائے جانے والے تہوار ِبار آوری یا پرندوں کے موسم اختلاط (Mating season) سے ہے۔“ (انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا) ۱۹۹۷ء میں شائع ہونے والے انسائیکلو پیڈیا آف کیتھولک ازم (Catholicism) کے بیان کے مطابق سینٹ ویلنٹائن کا اس دن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اصل بیان ملاحظہ کیجئے: ”ویلنٹائن نام کے دو مسیحی اولیا (Saints) کا نام ملتا ہے۔ ان میں سے ایک کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ وہ روم کا ایک پادری تھا جسے رومی دیوتاؤں کی پوجا سے انکار کرنے پر ۲۶۹ء میں شہنشاہ کلاڈئیس (Cladius-II) II کے حکم پر موت کی سزا دی گئی۔ دوسرا طرنی (Terni) کا ایک بشپ تھا جس کو لوگوں کو شفابخشنے کی روحانی طاقت حاصل تھی۔ اسے اس سے بھی کئی سال پہلے ’شہید‘ کردیا گیا تھا … آیا کہ ایک سینٹ ویلنٹائن تھا یا اس نام کے دو افراد تھے؟ یہ ابھی تک ایک کھلا ہوا سوال ہے۔ البتہ یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ ان دونوں کا محبت کرنے والے جوڑوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ محبت کے پیغامات یا تحائف بھیجنے کا رواج بعد میں غالباً ازمنہ وسطیٰ میں اس خیال کے تحت شروع ہوا کہ ۱۴/ فروری پرندوں کی جنسی مواصلت کا دن ہے۔ مسیحی کیلنڈر میں یہ دن کسی سینٹ کی یاد میں تہوار کے طور پرنہیں منایا جاتا۔“ (The Harper Lollins Encyclopeadia of Catholicism: p.1294) ویلنٹائن ڈے جیسے تہواروں کی تردید میں اس طرح کے تاریخی حوالہ جات کی ضرورت بھی نہیں ہونی چاہئے۔ مگر وہ لوگ جن کے ذہنوں میں ہوسناکی کے جذبات کے تحت پروان چڑھی ہوئی رومانویت نے ڈیرے جما رکھے ہیں ، ان کی اطلاع کے لئے یہ وضاحت ضروری سمجھی گئی۔ فرض کیجئے مسیحی یورپ یا روم کی تاریخ میں ویلنٹائن نام کے کوئی ’شہید ِمحبت‘ گذرے بھی ہیں ، تب بھی ہمارے لئے ایسے تہواروں کو منانا نرم ترین الفاظ میں ایک شرم ناک ثقافتی مظاہرہ ہوگا۔ امریکہ اور یورپ کے لغو جنس پرستوں کے ساتھ کندھا ملا کر چلنا ہمارے لئے کوئی باعث ِاعزاز امر نہیں ہے۔ ہمارا دین او رہماری تہذیب اس گراوٹ سے ہمیں بہت بلند دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اسلامی اخلاقیات اور ہندو تہذیب و تمدن کا کوئی مقابلہ نہیں ہے، مگر قومی ہزیمت کے شدید احساس |