Maktaba Wahhabi

45 - 71
ملک میں مکمل آزادی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب کوئی لڑکا کسی لڑکی سے عشق کے معاملے کو حتیٰ الامکان ظاہر نہیں کرتا تھا کیونکہ اس طرح کا اظہار سخت معیوب سمجھا جاتاتھا اور ایسی حرکت کے مرتکب نوجوانوں کی خوب درگت بنائی جاتی تھی، مگر آج یہ برا وقت بھی آگیا ہے کہ ہمارے اخبارات ایک ’نائکہ‘ کا پست کردار اداکرتے ہوئے عاشق و معشوق کے درمیان پیغام رسانی کا فریضہ انجام دینے میں کوئی باک نہیں سمجھتے بلکہ اسے محبت کرنے والے دلوں کی ’خدمات‘ سمجھتے ہیں ۔ اخبارات کی طرف سے عشقیہ پیغامات کی اشاعت پاکستان میں اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ یورپ کے اخبارات نے یہ جدت نکالی تھی جس کو بلاچون و چرا ہمارے اخبارات نے اپنا لیا ہے۔ اس دفعہ تو یہ سلسلہ دو تین انگریزی اخبارات تک محدود رہا ہے، اگلے سال اردو اخبارات بھی شائد اس ’کارِخیر‘ میں پیچھے نہ رہیں ۔ اسلام کے نام پر بننے والی اس مملکت ِخداداد میں لا دینیت اور جنسی بداعتدالیوں کوکس طرح تیزی سے پروان چڑھایا جارہا ہے، اس کااندازہ پاکستان کے عام شہری نہیں کر پارہے۔ جن لوگوں کو اس کا اندازہ ہے، وہ بھی اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتے ہیں ۔ انگریزی اخبارات جن میں عشقیہ پیغامات کے لئے مکمل صفحے مختص کئے گئے، ان میں بازاری جملوں اور فلمی مکالموں کو شائع کیا گیاجن کے سرسری مطالعے سے بھی نوجوان نسل کے غلط رجحانات کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ قارئین کرام! محبت کے پیغامات بھیجنے والی یہ لڑکیاں اور لڑکے اسی پاکستانی معاشرے کے فرد ہیں ۔ یہ مسلمان گھرانوں کی اولاد ہیں ، یہودی یاعیسائی نہیں ہیں ۔ مگر وہ جس جنون اور پاگل پن کا شکار ہیں ، کیا ایک مسلمان گھرانے سے تعلق رکھنے والے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا ’کنڈکٹ‘ (کردار) یہی ہونا چاہئے؟ اگر وہ گم کردہ راہ ہیں ، تو اس کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔ حکومت، تعلیمی ادارے، ذرائع ابلاغ، اساتذہ اور والدین، سب اپنی اپنی جگہ پراس قومی ’جرم‘ کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ آج اس ملک میں ویلنٹائن ڈے پر شہوت بھرے پیغامات کا آزادانہ تبادلہ ہورہاہے تو کل اسی پاکستان میں شہوانی تعلقات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بچوں کی نسل بھی ضرور پروان چڑھے گی۔ یورپ یہ نتائج دیکھ چکا ہے، ہم بھی اس عذاب سے نہیں بچ سکیں گے۔ یورپ میں بھی یہ سب کچھ ایک سال میں نہیں ہوگیاتھا، ان کے ہاں بھی خاندانی نظام کی تباہی اور جنسی انقلاب آہستہ آہستہ وقوع پذیر ہوا۔ یورپ کے دانشور خاندانی نظام کی بحالی کی دہائی دے رہے ہیں ، مگر اب پانی ان کے سروں سے گذر چکا ہے۔ ہمارے ہاں اس وقت محض ایک قلیل تعداد اس خطرناک اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہوئی ہے، ہماری آبادی کی اکثریت اس آگ کی تپش سے اب تک محفوظ ہے۔ ابھی وقت ہے کہ آگے بڑھ کر چند جھاڑیوں کو لگی آگ کو بجھا دیا جائے، ورنہ یہ پورے جنگل کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی…!! ذرائع ابلاغ پر چھایاہوا ایک مخصوص گروہ ویلنٹائن ڈے کو ’یومِ تجدید ِمحبت‘ کے طور پر پیش کررہاہے۔
Flag Counter